نازیوں کے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں جمہوریہ وائمار کا خاتمہ ہوا۔ یہ جمہوریہ ایک پارلیمانی حکومت تھی جو پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں قائم ہوئی۔ 30 جنوری 1933 میں اڈولف ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد نازی ریاست (جسے تھرڈ ریخ یعنی تیسرے دور کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے) بہت جلد ایک ایسی حکومت بن گئی جس میں جرمنوں کیلئے بنیادی حقوق کی بھی ضمانت نہ تھی۔ ریخ اسٹیگ یعنی جرمن پارلیمان کی عمارت میں 28 فروری 1933 کو ایک مشکوک آتشزدگی کے بعد حکومت نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت شہریوں کے آئینی حقوق معطل کر دئے گئے اور ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی جس میں سرکاری احکام کو پارلیمان کی توثیق کے بغیر ہی نافذ کیا جا سکے۔

ہٹلر کے چانسلر بننے کے پہلے چند ماہ کے دوران نازیوں نے "رابطہ کاری" کی پالیسی شروع کی جس کا مقصد افراد اور اداروں کو نازی مقاصد کے ساتھ ہم خیال بنانا تھا۔ اِس پالیسی کے تحت ثقافت، معیشت، تعلیم اور قانون تمام ہی نازی کنٹرول میں آ گئے۔ نازی حکومت نے جرمن گرجا گھروں میں بھی رابطہ کاری کی کوشش کی جو اگرچہ مکمل طور پر کامیاب تو نہ ہوئی لیکن اُسے کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ پادریوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہوئی۔

حکومت کے مقاصد اور نصب العین کے پرچار کیلئے وسیع پیمانے پر پراپیگنڈا کا استعمال ہوا۔ اگست 1934 میں جرمن صدر پال وان ہنڈن برگ کی موت پر ہٹلر نے صدرات کے فرائض بھی سنبھال لئے۔ فوج نے اُن سے وفاداری کا حلف اُٹھایا۔ ہٹلر کی آمریت ریخ صدر (صدر مملکت) ، ریخ چانسلر (سربراہ حکومت) اور فیوھرر (نازی پارٹی کے سربراہ) جیسی حیثیتوں پر قائم ہوئی۔ فیوھرر اصول کے مطابق ہٹلر قانون کے ضوابط سے باہر رہا اور پالیسی کے تمام معاملات خود ہی طے کرتا رہا۔

ہٹلر کو ملکی قانون سازی اور جرمن خارجہ پالیسی دونوں میں حتمی رائے کا حق حاصل تھا۔ نازی خارجہ پالیسی اس نسلی تعصب کے عقیدے پر بنیاد پزیر تھی کہ جرمنی کو حیاتیاتی طور پر فوجی قوت کے بل بوتے پر مشرق کی جانب پھیلنا چاہئیے اور ایک وسیع تر اور نسلی طور پر اعلٰی جرمن آبادی کو مشرقی یورپ اور سوویت یونین میں مستقل حکمرانی قائم کرنی چاہئیے۔ یہاں خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ آبادی سے متعلق تھرڈ ریخ کی جارحانہ پالیسی کے تحت "نسلی طور پر خالص" عورتوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ جتنے بھی "آریائی" بچے پیدا کرنا چاہیں پیدا کرسکیں۔

اس لائحہ عمل کے تحت "نسلی طور پر پست" افراد کو جن میں یہودی اور خانہ بدوش شامل تھے علاقے سے ختم کیا جانا تھا۔ ابتدا ہی سے نازی خارجہ پالیسی کا مقصد سوویت یونین کے خاتمے کیلئے جنگ کرنا تھا اور نازی حکومت کے امن کے برس جرمن لوگوں کو جنگ کیلئے تیار کرنے میں صرف ہوتے تھے۔ اِس نظریاتی جنگ کے حوالے سے نازیوں نے ہالوکاسٹ کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل کیا۔ اس میں وسیع پیمانے پر یہودیوں کا قتلِ عام کیا گیا جن میں وہ بنیادی طور پر نسلی دشمن سمجھتے تھے۔

نازی پارٹی کی گسٹاپو (خفیہ اسٹیٹ پولس) اور سیکورٹ سروس یعنی ایس۔ ڈی نے حکومت کے خلاف کھلی تنقید کو زبردستی دبا دیا لیکن ہٹلر کی حکومت کو بیشتر جرمنوں میں مقبولیت حاصل تھی۔ تاہم نازی مملکت کیلئے کسی حد تک مخالفت ضرور موجود تھی جو حکومت کی توثیق نہ کرنے سے لیکر 20 جولائی 1944 میں ہٹلر کے قتل کی کوشش تک میں ظاہر ہوئی۔

اتحادیوں نے نازی جرمنی کو شکست دی اور 8 مئی 1945 کو جرمن مملکت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔مذید مطالعہبرلیغ، مائیکل۔ دا تھرڈ ریخ: آ نیو ہسٹری۔ نیو یارک: ہل اینڈ وانگ، 2000 ایونز، رچرڈ۔ دا تھرڈ ریخ اِن پاور، 1939-1933 ۔ نیو یارک: پینگوئن پریس، 2005 ۔گرنڈر برگر، رچرڈ۔ دا ٹویلو یئر ریخ۔ آ سوشل ہسٹری آف نازی جرمنی، 1945-1933 ۔ نیو یارک: ہولٹ، رائن ہارٹ اینڈ ونسٹن، 1971 ۔فشر، کلاس۔ نازی جرمنی ۔ آ نیو ہسٹری۔ نیو یارک: کنٹی نیوئم، 1995 ۔نواکس، جیریمی، اینڈ جیفری پری دھم، ایڈیٹرز۔ نازی ازم، 1945-1919 ۔ ایکسیٹر [یو۔ کے]: یونیورسٹی آف ایکسیٹر پریس، 2001-1998 ۔