سام دشمنی اور یہودیوں کو منظم حراساں کرنے کا عمل نازی نصب العین کی بنیادی خصوصیت تھی۔ 1920 میں نازی پارٹی کے 25 نکاتی پروگرام کی اشاعت میں نازی پارٹی کے ارکان نے یہودیوں کو آریائی معاشرے سے الگ کرنے اور یہودیوں کے سیاسی ، قانونی اور شہری حقوق کی پامالی کے ارادے کا کھلم کھلا اعلان کیا۔ نازی لیڈروں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جرمن یہودیوں پر منظم طریقے سے ظلم و جبر کرنے کے اپنے وعدے کی پاسداری کا فوری آغاز کردیا۔ یہودی شہریوں کے حقوق کم کرنے کا پہلا بڑا قانون 7 اپریل 1933 کا پیشہ ورانہ سرکاری ملازمت کی بحالی کا قانون تھا جس کا مقصد یہودی اور "سیاسی طور پر ناقابلِ اعتماد" سرکاری ملازمین کو سرکاری فرائض سے خارج کرنا تھا

سول سروس کا یہ نیا قانون جرمن حکام کی طرف سے نام نہاد آریائی پیگراف کی پہلی تشکیل تھا۔ یہ ایک ایسا قانون تھا جسے یہودیوں اور دوسرے غیر آریائی افراد کو تنظیموں، مختف پیشوں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے خارج کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اپریل 1933 میں جرمن قانون کے تحت جرمن اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں یہودی طالب علموں کی تعداد کو محدود کردیا تھا۔ اسی ماہ کے دوران مذید قانون سازی کے تحت طبی اور قانونی پیشوں میں یہودی شراکت کو انتہائی کم کر دیا گیا۔ اِس کے بعد بننے والے قوانین اور احکام کی مدد سے یہودی ڈاکٹروں کو سرکاری ہیلتھ انشورنس فنڈ سے رقم کی واپس ادائیگی پر پابندی لگا دی گئی۔

نیورمبرگ میں ستمبر 1935 میں نازی پارٹی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر نازی لیڈروں نے نئے قوانین کا اعلان کیا جنہوں نے نازی نصب العین میں غالب نسلی تعصب پر مبنی تصورات کو عملی شکل دی۔ "نیورمبرگ قوانین" کے تحت جرمن یہودیوں کو جرمن سلطنت یا Reich کی شہریت سے خارج کر دیا گیا اور اُن کیلئے جرمن یا جرمن نسل کے افراد سے شادی کرنے یا جنسی تعلقات اُستوار کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ اِن قوانین کے اضافی آرڈیننس نے یہودیوں کو بیشتر سیاسی حقوق سے بھی محروم کر دیا۔ یہودیوں سے ووٹ دینے کا حق بھی چھین لیا گیا اور انہیں کوئی بھی سرکاری عہدہ حاصل کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔

نیورمبرگ قوانین کے تحت یہودیوں کی شناخت ایسے افراد کے طور پر نہیں کی گئی جو مخصوص مذہبی عقائد رکھتے ہیں۔ اِس کے بجائے نیورمبرگ قوانین میں پہلی ترمیم کے تحت ایسے شخص کو یہودی قرار دیا گیا جس کی تین یا چار نسلیں یہودی ہوں اِس بات سے قطع نظر کہ آیا وہ شخص خود کو یہودی تصور کرتا ہو یا یہودی برادری سے تعلق رکھتا ہو۔ بہت سے جرمن افراد یہودیت پر عمل پیرا نہیں تھے یا برسوں سے یہودی عقائد سے دور تھے۔ اُنہوں نے خود کو نازی دہشت کی شدید پکڑ میں پایا۔ پھر کچھ لوگوں کو عیسائی مذہب اختیار کرنے کے باوجود یہودی قرار دیا جا سکتا تھا کیونکہ اُن کے بزرگوں کی تیسری نسل یہودی تھی۔

1936 میں سرمائی اولمپک کھیلوں کا انعقاد گارمش پارٹنکرچن Garmisch- Partenkirchen میں ہوا جبکہ موسمِ گرما کے اولمپک کھیل برلن میں ہوئے۔ اِن کھیلوں سے کچھ ہفتے پہلے اور اُن کے دوران نازی حکومت نے واقعتاً اپنے کھلم کھلا یہودی مخالف نظریات اور سرگرمیوں کو نرم کر دیا۔ حکومت نے بعض مقامات سے "یہودیوں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے" جیسے نشان بھی ہٹا دئے۔ دراصل ہٹلر اپنی حکومت پر بین الاقوامی تنقید کے نتیجے میں کھیلوں کو کسی دوسرے ملک میں منتقل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ اِس طرح کا نقصان حکومت کے وقار کیلئے ایک سنگین دھچکہ ثابت ہوتا۔ اِسی طرح نازی لیڈر بین الاقوامی سیاحت اور اُس سے حاصل ہونے والی آمدن کی حوصلہ شکنی نہیں چاہتے تھے جو اولمپک کھیلوں کے برس میں اُنہیں حاصل ہونے والی تھی۔

1937 اور 1938 میں جرمن حکام نے دوبارقانون سازی کے ذریعے جرمن یہودیوں پر جبر و ستم تیزی سے بڑھا دیا۔ حکومت نے یہودیوں کیلئے اپنی املاک و جائیداد کو رجسٹر کرانے کی شرط عائد کر دی اور اِس طرح اُنہیں غربت سے دوچار کرنے اور جرمنی کے معاشی دھارے سے الگ کرنے کے اقدامات شروع کر دئے۔ در حقیقت نازی حکومت نے اولمپک کھیلوں سے پہلے ہی یہودیوں کے کارروباروں کو آریائی بنانے کا عمل شروع کر دیا تھا۔ آریائی بنانے سے مراد یہ تھی کہ کمپنی کے یہودی کارکنوں اور منیجروں کو نکال دیا جائے اور یہودی کاروباروں کو غیر یہودی جرمن سنبھال لیں جس کیلئے حکومت یا پھر نازی پارٹی کے اہلکار خود بہت کم قیمت کا تقرر کر دیتے۔ 1937 اور 1938 میں حکومت نے یہودیوں ڈاکٹروں کو منع کر دیا کہ وہ غیر یہودی افراد کا علاج نہ کریں اور پھر یہودی وکلاء کی قانونی پریکٹس کے لائسنس بھی منسوخ کر دئے۔

9 اور 10 نومبر 1938 کے کرسٹل ناخٹ Kristallnacht پروگرام کے بعد نازی لیڈروں نے ہر چیز کو آریائی بنانے کی کوششیں تیز کر دیں۔ کرسٹل ناخٹ کو عام طور پر ٹوٹے شیشے کی رات کہا جاتا ہے۔ نازی لیڈروں نے ایسے ضابطے لاگو کئے جن سے یہودیوں کو دوسرے جرمنوں سے الگ تھلگ اور مکمل طور پر تنہا کرنے میں کافی کامیابی ہوئی۔ یہودیوں کا داخلہ تمام سرکاری اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ سنیما گھروں، تھیٹروں اور کھیل کے میدانوں میں بھی بند کر دیا گیا۔ بہت سے شہروں میں مخصوص آریائی علاقوں میں یہودیوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جرمن فرمانوں اور قانونی احکام نے پیشہ ورانہ زندگی میں یہودیوں پر پابندی میں توسیع کردی۔ مثال کے طور پر ستمبر 1938 تک یہودی ڈاکٹروں کیلئے آریائی مریضوں کا علاج مؤثر طور پر ممنوع ہو گیا۔

جرمن حکام نے اگست 1938 میں حکم دیا کہ یکم جنوری 1939 تک اُن یہودی مردوں اور عورتوں کو، جن کے پہلے نام بنیادی طور پرغیر یہودی تھے، اپنے ناموں کے ساتھ بالترتیب اسرائیل اور سارا کا اضافہ کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ تمام یہودیوں کیلئے ہر وقت ایسے شناختی کارڈ ساتھ رکھنا لازمی قرار دیا گیا جس میں اُن کی یہودی میراث کی واضح نشاندہی موجود ہو۔ 1938 کے موسمِ خزاں میں تمام یہودیوں کے پاسپورٹوں پر شناخت کیلئے حرف J کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ پھر جیسے جیسے نازی لیڈروں نے یورپ فتح کرنے کی خاطر اپنی جنگ کی تیاریوں میں جلدی کی، جو وہ فوری طور پر شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، جرمنی اور آسٹریہ میں سام دشمنی پر مبنی قانون سازی نے یہودیوں کیلئے مذید شدت کے ساتھ جبر کا راستہ ہموار کر دیا۔