بوخن والڈ اپنے ذیلی کیمپوں سمیت نازیوں کی طرف سے قائم کیا جانے والا سب سے بڑا کیمپ تھا۔ ایس ایس نے بوخن والڈ جولائی 1937 میں جرمنی کے مشرقی وسطی علاقے وائمر سے تقریباً پانچ میل شمال مغرب کی جانب کھولا۔ قیدیوں کو کیمپ کے شمالی حصے ("بنیادی کیمپ) میں رکھا گیا جبکہ محافظوں کی بیرکیں اور کیمپ کی انتظامیہ کے دفاتر جنوبی حصے میں تھے۔ بنیادی کیمپ کے گرد خار دار تاروں کی باڑ تھی جس میں سے بجلی گزرتی تھی۔ اس کے علاوہ نگرانی کی چوکیوں کے ٹاور اور مشین گنیں تھامے سنتریوں کی قطاریں ہوتی تھیں۔ ایس ایس کے اہلکار اکثر قیدیوں کو باڑوں میں گولی مار کر ہلاک کر دیتے اور لاشیں جلانے کے مراکز میں پھانسی پر لٹکا دیتے تھے۔ شروع میں کیمپ کے بیشتر رہائشی سیاسی قیدی ہوتے تھے۔ نومبر 1938 میں کرسٹل ناخٹ کے بعد جرمن ایس ایس اور پولیس نے دس ھزار کے لگ بھگ یہودی مردوں کو بوخن والڈ منتقل کیا جہاں حکام نے اُن کو شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ ایس ایس نے مجرموں ، یہووا کے گواہوں، روما اور سینتی (خانہ بدوش) اور جرمن فوج چھوڑ دینے والوں کو بھی بوخن والڈ منتقل کیا۔ کیمپ کے بعد کے مراحل میں ایس ایس نے مختلف ممالک کے جنگی قیدیوں کو بھی وہاں رکھا (ان میں امریکی جنگی قیدی بھی شامل تھے)۔ ان کے علاوہ مزاحمت کاروں اور جرمن مقبوضہ ممالک کے سابق سرکاری اہکاروں کو بھی بوخن والڈ میں قید رکھا۔

1941 سے کئی ایک ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے بوخن والڈ کے قیدیوں پر طبی تجربات کرنے شروع کر دئے۔ ان طبی تجربات میں خاص طور پر متعدی بیماری پر توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں قیدیوں کی موت واقع ہو گئی۔ بوخن والڈ کیمپوں کا نظام جرمن جنگی تیاریوں کے سلسلے میں جبری مشقت فراہم کرنے کا اہم ذریعہ تھا۔ 1942 میں گسٹلوف کمپنی نے ہتھیاروں کی فیکٹریوں کیلئے جبری مزدور حاصل کرنے کی غرض سے بوخن والڈ کا ایک ذیلی کیمپ قائم کیا۔ ایس ایس حکام اور کاروباری عہدیداروں نے کم سے کم اٹھاسی ذیلی کیمپ قائم کئے جن میں سے زیادہ تر گولہ بارود کی فیکٹریوں ، پتھر توڑنے والی فیکٹریوں اور تعمیراتی منصوبوں کیلئے جبری مزدور فراہم کئے جاتے تھے۔ قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا جو فروری 1945 میں 112,000 تک پہنچ گئی۔ وقفے وقفے سے ایس ایس کا عملہ بوخن والد کیمپوں کے تمام تر نظام میں قیدیوں کا "انتخاب" کرتا تھا اور جو قیدی انتہائی کمزوری کے باعث کام کرنے کے قابل نہ ہوتے تو اُنہیں رحمدلانہ موت سے موسوم تنصیبات میں بھجوا دیا جاتا تھا جہاں اُنہیں زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ بوخن والڈ میں ایس ایس کے ڈاکٹروں نے کام کیلئے نااہل قیدیوں کو فینول کے ٹیکوں کے ذریعے ہلاک کیا۔

سوویت فوجوں نے جوں جوں پولینڈ کے تمام علاقوں کو صاف کرتے ہوئے پیش قدمی کی، جرمن یکے بعد دیگرے حراستی کیمپوں سے قیدیوں کا انخلاء کرتے گئے۔ طویل اور ظالمانہ مارچ کے بعد آشوٹز اور گراس روزن سے 10,000 قیدی جنوری 1945 میں بوخن والڈ پہنچے۔ ان میں زیادہ تر قیدی یہودی تھے۔ اپریل 1945 کے آغاز میں جب امریکی فوجیں وہاں پہنچیں تو جرمنوں نے بوخن والڈ اور اس کے ذیلی کیمپوں سے تقریباً 30,000 قیدیوں کو نکال لیا۔ ان میں سے ایک تہائی کے لگ بھگ قیدی انتہائی نقاہت کے باعث ہلاک ہو گئے یا پھر ایس ایس نے اُنہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ بوخن والڈ میں موجود ایک خفیہ مزاحمتی تحریک نے نازی احکام کی تعمیل میں رکاوٹیں ڈال کر یا انخلاء میں تاخیری حربے استعمال کر کے بہت سے قیدیوں کی زندگی بچا لی۔ 11 اپریل 1945 کو آزادی کی اُمید میں بھوک پیاس سے نڈھال ایدیوں نے نگرانی کی چوکیوں پر دھاوا بول دیا اور کیمپ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اُسی روز بعد میں امریکی فوجیں بوخن والڈ کیمپ میں داخل ہو گئیں۔ چھٹی بکتر بند ڈویژن کے فوجیوں نے وہاں 21,000 قیدیوں کو پایا۔ جولائی 1937 اور اپریل 1945 کے دوران ایس ایس نے یورپ بھر سے ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ افراد کو بوخن والڈ میں قید کیا۔ مرنے والوں کی اصل تعداد کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ کیمپ کے حکام نے ان کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔ ایس ایس نے بوخن والڈ میں کم از کم 56,000 مرد قیدیوں کو ہلاک کیا جن میں سے گیارہ ھزار کے لگ بھگ یہودی تھے۔