پس منظر

ھولوکوسٹ کے دوران 11 لاکھ سے زائد یہودی بچوں کو ہلاک کیا گیا۔

نازیوں اور اُن کے حلیفوں کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والے لاکھوں بچوں میں سے بہت کم تعداد ایسی تھی جس نے ایسی ڈائریاں اور جرنل لکھے جو محفوظ ہوئے۔ ان ڈائریوں میں چھوٹے لکھنے والوں نے اپنے تجربات کی تفصیل بیان کی، اپنے جذبات کا اظہار کیا اور ان خوفناک برسوں کے دوران اپنے مسلسل خوف کے بارے میں بتایا۔

میریم واٹین برگ کی ڈائری

میریم واٹین برگ ("میری برگ") کی ڈائری اُن سب سے پہلے بچوں میں سے ایک کی ڈائری تھی جس میں وسیع تر عوام کو ھولوکوسٹ کے خوف سے آگاہ کیا گیا۔

واٹین برگ 10 اکتوبر، 1924 کو لوڈز میں پیدا ہوئیں۔ اُنہوں نے جنگ کے زمانے کی ڈائری جرمن افواج کے آگے پولینڈ کے ہتھیار ڈالنے کے کچھ ہی دیر بعد اکتوبر 1939 میں لکھنا شروع کی۔ واٹین برگ خاندان بھاگ کر وارسا چلا گیا جہاں نومبر 1940 میں میریم کو اپنے والدین اور چھوٹی بہن کے ساتھ وارسا گھیٹو میں رہنا پڑا۔ واٹین برگ خاندان کو اس گھیٹو میں ترجیحی مقام حاصل تھا کیونکہ میریم کی والدہ امریکی شہری تھیں۔

1942 کے موسم گرما میں وارسا کے یہودیوں کی ٹریبلنکا کی طرف جلاوطنی سے کچھ ہی دیر پہلے جرمن اہلکاروں نے میرین، اُن کے خاندان اور اُن دیگر یہودیوں کو بدنام پاویک جیل خانے میں نظر بند کر دیا جن کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ تھے۔ جرمن اہلکاروں نے بالآخر اُنہین فرانس کے عبوری کیمپ میں منتقل کر دیا اور اُنہیں 1944 میں امریکہ منتقل ہونے کی اجازت دے دی۔ میرین کی ڈائری "میری برگ" کے قلمی نام سے فروی 1945 میں شائع ہوئی۔ میرین کی ڈائری دوسری جنگ عظیم سے قبل انگریزی بولنے والی دنیا کے لئے منظر عام پر آنے والی وارسا گھیٹو کے چشم دید واقعات کی انتہائی قلیل داستانوں میں سے ایک ہے۔

این فرینک کی ڈائری

این فرینک نے اپنی ڈائری اپنے خاندان اور چند جان پہچان کے لوگوں کے ساتھ ایمسٹرڈیم کے ایک ایٹک ویئر ھاؤس میں چھپنے کے دوران لکھی۔ وہ ھولوکوسٹ کے زمانے کے ڈائریاں لکھنے والوں میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔

وہ 12 جون، 1929 کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ۔ایم۔مین میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا نام اینیلیز فرینک رکھا گیا۔ وہ بزنس مین اوٹو فرینک اور اُن کی بیوی ایڈتھ کی دوسری بیٹی تھیں۔ جب نازی جنوری 1933 میں اقتدار میں آئے تو فرینک خاندان نئی حکومت کے یہود مخالف اقدامات سے بچتے ہوئے فرار ہو کر ایم سٹرڈیم پہنچ گیا۔این کو اپنی بارھویں سالگرہ پر ایک آٹو گراف بک تحفے میں ملی اور اُنہوں نے اسے ڈائری لکھنے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ "خفیہ ایٹک" میں جو کچھ بھی ہوتا، وہ اس کی تفصیل اس میں قلمبند کرتی گئیں۔ ایک نامعلوم ذریعے سے حاصل ہونے والی خفیہ اطلاع پر جرمن سیکیورٹی پولیس نے فرینک خاندان کو 4 اگست، 1944 میں اُن کی چھپنے کی جگہ سے ڈھونڈ نکالا اور تمام لوگوں کو وہاں سے ویسٹربروک کے راستے آشوٹز پہنچا دیا۔

1944 کے اکتوبر کے آخر میں یا نومبر کے شروع میں این اور اُن کی بہن مارگوٹ قیدیوں والی گاڑیوں کے ذریعے آشوٹز سے برجن۔بیلسن لائی گئیں جہاں وہ ٹائفس میں مبتلاء ہو کر 1945 میں فروری کے آخر میں یا مارچ کے شروع میں چل بسیں۔ جنگ کے بعد این کے والد اوٹو فرینک، جو تمام گروپ میں زندہ بچ جانے والے واحد شخص تھے، 1945 کے موسم گرما میں ایمسٹرڈیم واپس لوٹ آئے جہاں اُن کے سابق ملازم میئپ گیز نے این کی ڈائری اور کچھ دیگر کاغذات دئے جو گرفتاری کے بعد این انیکسی میں چھوڑ گئیں تھیں۔ ڈائری پہلی مرتبہ 1947 میں نیدرلینڈ میں منظر عام پر آئی۔ یہ ڈائری "ایک نوجوان لڑکی کی ڈائری" کے نام سے 1952 میں انگلینڈ میں شائع ہوئی جس نے اس کی مصنفہ کو اُن لاکھوں یہودی بچوں کی آواز میں تبدیل کر دیا جو ھولوکوسٹ کے دوران قتل کر دئے گئے تھے۔

ڈائریوں اور جرنلز کی درجہ بندی

این فرینک کی ڈائری کی شہرت نے ھولوکوسٹ کے دوران دوسرے بچوں کی طرف سے لکھی جانے والی ڈائریوں کو گہنا دیا۔ بہرحال ھولوکوسٹ میں لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ ہو گیا ہے اور اسی طرح بہت سی دیگر ڈائریاں بھی چھپی ہیں جن میں نازی ظلم و ستم کے تحت جنگ کے زمانے میں نوجوان بچوں کی زندگیوں کی حالت زار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس وقت کے نوجوان جرنل لکھنے والے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈائریاں لکھنے والے بچوں میں کچھ غریب یا کسان خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ دیگر درمیانے طبقے کے پیشہ ور افراد کے ہاں پیدا ہوئے جبکہ کچھ متمول اور مراعات یافتہ لوگوں کے ہاں پیدا ہوئے۔ چند ایک انتہائی مذہبی گھرانوں سے تھے اور کچھ دیگر محصور علاقوں میں پروان چڑھے۔ ڈائریاں لکھنے والوں کی اکثریت نے اپنے اپنے اعتقادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہودی روایت اور ثقافت سے وابستگی کا اظہار کیا۔

ھولوکوسٹ کے زمانے کی بچوں کی ڈائریوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1) اُن بچوں کی طرف سے لکھی گئیں ڈائریاں جو جرمنوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے فرار ہو گئے اور پناہ گذیں یا حامی بن گئے۔

2) اُن بچوں کی ڈائریاں جو مخفی طور پر رہ رہے تھے؛ اور

3) وہ ڈائریاں جو گھیٹو کے ریہائشی نوجوان افراد نے لکھیں، جو جرمن حکام کی طرف سے لاگو کی گئی پاندیوں کے تحت رہ رہے تھے، یا، نسبتاً شاذونادر، حراستی کیمپوں کے قیدی تھے۔

پناہ گذینوں کی ڈائریاں

پناہ گذینوں کی ڈائریاں 1930 کی دہائی کے آخر میں یا 1940 کی دہائی کے شروع میں اُن بچوں نے لکھیں جن کے والدین جرمنی، آسٹریہ یا چیک علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے۔ ان میں سے بہت سی ڈائریوں میں بے دخلی سے متعلق مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے کیونکہ ان لکھنے والے بچوں کو اپنے گھروں کے ماحول سے محروم ہو کر دوسرے ممالک میں اجنبیوں کے ہاں پناہ تلاش کرنی پڑی۔

جٹا سیلزبرگ (پیدائش 1926 میں ھیمبرگ جرمنی میں)، لیلی کوہن (پیدائش 1928 ھالبرشٹٹ جرمنی میں)، سوزی ھلسن ریتھ (پیدائش 1929 بیڈ کریوزناخ جرمنی میں)اور الزبیتھ کاف مین (1926 میں ویانا،آسٹریہ میں پیدا ہوئیں اور اُن کا انتقال 2003 میں ہوا) جیسے لکھنے والے اپنے بہن بھائیوں یا والدین کے ساتھ فرار ہوئے۔ جبکہ کلاس لینگر (پیدائش 1924 میں گلیوٹز، اپر سائلیسیا)، پیٹر فیگل (پیدائش 1929 میں برلن میں)، ورنر ایگریس (پیدائش 1920 میں برلن، جرمنی میں اور وفات 2010 میں) اور لیجا جیڈویب (پیدائش 1924 میں بیالیسٹاک، پولینڈ میں)جیسے دیگر لکھنے والے اجنبی ملکوں میں اکیلے ہی پہنچے۔

جن لکھنے والے بچوں نے قانونی طور پر امیگریشن حاصل کی، اُنہوں نے اکثر اُن شدید دشواریوں کا تذکرہ کیا جن کا سامنا اُنہیں محفوظ مقامات تک رسائی میں اور مطلوبہ ویزا اور سفری دستاویزات کے حصول میں نوکر شاہی رویوں کے باعث ہوا۔ جن لکھنے والوں نے غیر قانونی طور پر فرار کی راہ اختیار کی، اُنہوں نے خطرناک راستوں کے ذریعے دشوار سفر اور پکڑے جانے کے خوف کا اظہار کیا۔

تاہم فرار کے ذرائع سے قطع نظر پناہ گذینوں کی ڈائریوں میں گھروں، زبان اور ثقافت سے محرومی؛ خاندان اور دوستوں سے تباہ کن علحدگی؛ اور غیر مانوس اور بعض اوقات تنہا کر دینے والی زندگی سے مطابقت کے چیلنج کا دردناک تذکرہ کیا گیا ہے۔

چھپنے کے دوران لکھی گئی ڈائریاں

این فرینک کی طرح کچھ نوجوان لوگ جرمن حکام سے بچنے کی خاطر چھپے رہے: تماتر مشرقی اور مغربی یورپی علاقوں میں، ایٹک میں، بنکروں میں یا چھوٹے سیلز میں۔ ان لکھنے والوں میں اوٹو وولف (پیدائش 1927 موھلنیک، چیکوسلواکیہ) جرمن تسلط کے علاقے بوہیمیہ اور موراویہ میں؛ مینا گلکسمین، کلارا کریمن (پیدائش 1927 زولکیو) اور لیو سلبرمین (پیدائش 1928 پرزیمسل) پولینڈ میں؛ برٹکے بلوخ۔وین رھیجن، ایڈتھ وین ھیسین (پیدائش 1925 ھیگ ) اور انیتا میئر (پیدائش 1929 ھیگ) نیدرلینڈ میں چھپے رہے۔۔۔ ان ڈائریوں میں چھپنے کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ان بچوں کو چھپنے کے دوران جزوی یا مکمل وقت کے دوران جسمانی طور پر پوشیدہ رکھا گیا۔ ان نوجوانوں کو اکثر اپنی چھپنے والی جگہوں میں مسلسل کئی گھنٹوں تک بغیر کسی حرکت کے خاموش رہنا پڑا۔ بچوں اور اُن کو پناہ دینے والوں کو مسلسل خوف کی کیفیت میں رہنا پڑا۔ ذرا سی آواز یا پاؤں پھسلنے کی آواز سے اُن کے پڑوسیوں کو شبہ ہو سکتا تھا۔

چھپنے کے دوران دیگر نوجوان جیسے ڈائری لکھنے والا بچہ موشے فلنکر (پیدائش 1926 ھیگ؛ وفات 1944 آشوٹز) بیلجیم میں اور پیٹر فیگل فرانس میں جعلی کاغذات اور تبدیل شدہ شناخت کی مشکوک حفاظت کے تحت غیر یہودی کی حیثیت سے عام نظروں سے چھپتے رہے۔ ان بچوں کو عجلت میں اور مکمل طور پر اپنی نئی شناختوں اور ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا تھا۔ نوجوانوں نے اپنے فرضی نام پکارے جانے پر فوری جواب دینے اور اپنی زبان اور ایسے رویوں سے احتیاط کے ساتھ بچنا سیکھ لیا جن سے اُن کی اصلیت ظاہر ہو سکتی تھی۔

چونکہ زیادہ تر یہودی بچوں کو ایک افراد یا مذہبی اداروں نے پناہ دی تھی جن کے عقیدے خود اُن سے مختلف تھے، نوجوانوں نے اپنے اختیار کردہ مذہب کی عبادت طریقے سیکھ لئے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں اور بڑوں کے شبہ سے بچ سکیں۔ ایک غلط لفظ یا انداز بچے اور اس کو پناہ دینے والے دونوں کیلئے خطرناک ثابت ہونے کیلئے کافی تھا۔

گھیٹو، کیمپوں اور مقبوضہ علاقوں میں لکھی گئیں ڈائریاں

ھولوکوسٹ کے دور سے منظر عام پر آنے والی بیشتر ڈائریاں اُن بچوں اور نوجوانوں نے لکھیں جو جرمن مقبوضہ یورپ کی یہودی بستیوں یعنی گھیٹو میں رہائش پزیر تھے۔ گھیٹو میں لکھی جانے والی ان ڈائریوں میں علحدہ کر دئے جانے، تنہا کر دئے جانے اور لکھنے والوں کیلئے پکڑے جانے کا خوف نمایاں رہا۔ ان میں لکھنے والوں کی جسمانی اذیتوں اور محرومیوں کا حال موجود ہے اور ان میں اُن مظالم، سختیوں اور مخالفتوں کا تذکرہ بھی موجود ہے جن کا سامنا یہودیوں نے اپنی بقا کی جدوجہد کے دوران کیا۔ ان گھیٹو ڈائریوں میں پڑھنے والوں کو نازیوں کے ظلم و استبداد، تشدد اور دہشت کا حال ملتا ہے۔ تاہم ان میں اُن نوجوانوں کا ذکر بھی ہے جنہوں نے اپنی تعلیمی، تخلیقی اور فنون لطیفہ سے متعلق صلاحیتوں کے ذریعے وہاں موجود صورت حال سے ماورا ہونے کی کوشش کی۔

جرمنی کے زیر تسلط مشرقی یورپ میں، جس میں خاص طور پر پولینڈ اور سابق سوویت یونین شامل ہیں، بہت سی سابقہ یہودی بستیوں میں بچوں کی لکھی ہوئی بہت سی ڈائریاں اور جرنل ملے۔ ان میں ڈیوڈ سیراکوئیک (پیدائش 1924 لوڈز، وفات 1943 لوڈز گھیٹو) اور لوڈز کے دو نامعلوم بیس سال سے عمر کے بچوں کی ڈائریوں کو بہت شہرت ملی۔ وارسا گھیٹو سے مکمل حالت میں بہت ہی کم ڈائریاں ملیں لیکن جینینا لیونسن (پیدائش 1926 وارسا، وفات 2010 ) کے کچھ بکھرے ہوئے نوٹس بچ گئے جو بعد میں اُن کی یادداشتوں میں شامل کر لئے گئے۔ آئرینا گلک (پیدائش 1926 وفات c 1942 ) رینیا نول (پیدائش 1927 ) اور ہیلینا نیلکن (پیدائش 1924 کراکاؤ) نے کراکاؤ گھیٹو میں ڈائریاں لکھیں جبکہ ڈیوڈ روبینووچ (پیدائش 1927 کیلچ، وفات 1942 ٹریبلنکا)، ایلسا بنڈر اور روتھکا لیبلچ (پیدائش 1926 ، وفات c 1942 آشوٹز) بے اپنی برادریوں پر ہونے والے نازی ظلم و ستم کے بارے میں ڈائریاں لکھیں۔

بہت سی ڈائریاں بالتیک ممالک میں قائم یہودی بستیوں میں لکھی گئیں۔ ان میں یتزخوک روڈاشیوزکی (پیدائش 1927 ویلنئس، وفات 1943 پونری ووڈز) اور ویلنئس لیتھوانیہ کے ویلنے گھیٹو سے گیبک ھیلر؛ ایلیا گربر (پیدائش 1924 ؛ وفات c 1943 ) اور تمارا لیزرسن (پیدائش 1929 کونیس) کونس، لیتھوانیہ کے کوونو (کوونے) گھیٹو سے اور ریگا گھیٹو میں محصور جرمن یہودی لڑکی گرٹروڈ شنائیڈر (پیدائش 1923 ویانا) شامل ہیں۔

بہت سی ڈائریاں بوھیمیہ (موجودہ جمہوریہ چیک) کے تھیریسئن شٹٹ کیمپ سے برامد ہوئیں۔ ان میں دو بہن بھائیوں پیٹر گنز (پیدائش 1928 پراگ؛ وفات c 1944 آشوٹز) اور ایوا گنزووا (پیدائش 1930 پراگ)، ایلس ایہرمین (پیدائش 1927 پراگ)، ھیلگا وائیزووا (پیدائش 1929 پراگ)، ھیلگا پیلیکووا (پیدائش 1930 )، ایوا روبیکووا (پیدائش 1920 ) اور پال وائنر (پیدائش 1931 پراگ) کی تحریریں شامل ہیں۔

بچوں نے بہت سی ڈائریاں گھیٹو یعنی یہودی بستیوں کی دیواروں سے باہر لکھیں۔ مثال کے طور پر سارا فشکن (پیدائش c 1924 ، وفات c 1942 ) نے اپنی ڈائری مقبوضہ بیلا روس کے قصبے روبیژیویچی میں رکھی۔ ریوا گولٹسمین نے یوکرین کے شہر دنیاپروپیٹروفسک پر قبضے کے پہلے چھ سال کے دوران پریشانیوں کا حال بیان کیا۔ لیان ویلز (پیدائش 1925 اسٹوجانوف بائی لووو موجودہ لویو نے لووو کی جینو اسٹریٹ پر موجود جبری مشقت کے کیمپ میں سونڈرکمانڈو یونٹ کے ایک نوجوان رکن کی حیثیت سے ایک ڈائری رکھی جبکہ گنتھر مارکوزے (پیدائش 1923 برلن، وفات 1944 آشوٹز) نے گراس۔بریزن میں موجود ایک جبری مشقت کے کیمپ میں اپنے تجربات تحریر کئے۔ یہ کیمپ کسی زمانے میں اُن یہودی نوجوانوں کیلئے ووکیشنل ٹریننگ فارم ہوتا تھا جو جرمن سلطنت سے نکل مکانی اختیار کرنے کی اُمید رکھتے تھے۔ ایزابل جیسین نے اپنی ڈائری جرمن قبضے کے دوران پیرس میں لکھی جبکہ ریمونڈ نوووڈوورسکی (پیدائش 1929 ، 1951 میں اسرائیل میں) نے سنٹر ووکوئلین نامی ایک چلرڈرنز ھوم میں اپنی زندگی کی تفصیلات بیان کیں۔ یہ ھوم لی یونین جنرلے ڈوس ازرائیلائٹس ڈی فرانس (UGIF) کے زیر انتظام چل رہا تھا۔

ہر ڈائری میں کسی نہ کسی پہلو کی نشاندہی کی گئی

بچوں، ٹین ایجرز اور نوجوانوں کی طرف سے لکھی گئی ان ڈائریوں میں ھولوکوسٹ کے دوران اپنے ذاتی پس منظر اور جنگ کے زمانے کے حالات کی عکاسی کی گئی تھی۔ ان ڈائریوں کے مصنفوں نے انسانی تکالیف کی نوعیت، ظلم و ستم کے اخلاقی پہلو اور مایوسی کے مقابلے میں اُمید کا دیا جلائے رکھنے کی جدوجہد کا احاطہ کیا۔ ہر ڈائری لکھنے والے کی زندگی کے کسی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ تاہم مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ ڈائریاں پڑھنے والوں کو نوجوان لوگوں کے متنوع اور پیچیدہ خیالات بیان کرتی ہیں جو ھولوکوسٹ کے دوران زندہ تھے اور پھر زندگی ہار بیٹھے۔