دوسری عالمی جنگ کے بعد جنگی جرائم کے انتہائی جانے پہچانے مقدمات میں سے ایک نیورمبرگ جرمنی میں پیش ہونے والا مقدمہ تھا جسے بڑے جرمن جنگی مجرموں کا مقدمہ کہا جاتا ہے۔ نیورمبرگ میں بین الاقوامی فوجی عدالت (انٹرنیشنل ملٹری ٹرائبیونل یا آئی۔ ایم۔ ٹی) میں برطانیہ، فرانس، سوویت یونین اور امریکہ کے ججوں کے سامنے نازی حکومت کے کلیدی عہدیداروں پر مقدمہ چلایا گیا۔ آئی۔ ایم۔ ٹی نے سازش، امن کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر 22 جرمنوں پر بڑے جنگی مجرموں کی حیثیت سے مقدمہ چلایا۔ نیورمبرگ کے اِس مقدمے میں حکومت کے کلیدی عہدیداروں، مسلح افواج اور معیشت پر مقدمہ چلانے سے کہیں زیادہ کارروائی ہوئی۔ اِس کے دیر پا نتائج میں اُن ہولناک جرائم کے سرکاری ریکارڈ کو جمع کرنا بھی شامل تھا جن کا ارتکاب دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنوں اور اُن کے معاونوں نے کیا تھا۔

نیورمبرگ میں امریکی استغاثہ نے فیصلہ کیا کہ نازیوں کے جنگي جرائم کے خلاف بہترین شہادت خود نازی جرمن حکومت کا چھوڑا ہوا اپنا ریکارڈ ہے۔ وہ نازی جنگی مجرموں کو اُنہیں کے الفاظ کے ساتھ قصوروار ثابت کرنا چاہتے تھے۔ جرمنوں نے جنگ کے اختتام پر کچھ تاریخی ریکارڈ تباہ کر دئے تھے جبکہ جرمن شہروں پر اتحادیوں کی بمباری کے دوران بعض ریکارڈ ختم ہو گئے تھے۔ اتحادی فوجوں نے 1945 میں جرمنی پر فتح حاصل کرنے کے بعد لاکھوں دستاویزات پر قبضہ کر کیا تھا۔ اتحادی استغاثہ کے وکلاء نے نیورمبرگ مقدمے میں تقریباً تین ھزار ٹن ریکارڈ پیش کیا۔ ایک عشرے سے کچھ زیادہ عرصے کے بعد 1958 میں ابتدا کرتے ہوئے امریکہ کی قومی آرکائیوز نے امریکن ہسٹاریکل ایسوسئیشن کی مدد کے ساتھ خاتمہ جنگ پر امریکی فوج کو ملنے والے ریکارڈ سے متعلقہ مواد تلاش کرنے کیلئے 62 جلدیں شائع کیں۔ 30 سے زائد مزید جلدیں بیسویں صدی کے اختتام سے پہلے چھاپی گئیں۔

امریکی فوج کی 90 ویں انفنٹری ڈویژن کے انجینئروں نے مرکزی جرمنی میں کائی سیروڈا نمک کی کان میں 7 اپریل 1945 کو اہم نازی خزانے اور ریکارڈ کا پتہ لگایا جن میں سونا، کرنسی، آرٹ کے شہ پارے اور دستاویزات شامل تھیں۔ لاکھوں کی تعداد میں دستاویزات مختلف مقامات سے ملیں جن میں جرمن فوجی ہائی کمان کے ریکارڈ، کروپ کی فائلیں، ہینشل اور دیگر صنعتی اداروں کے ریکارڈ، جرمن فضائیہ کا مواد اور ھائن ریخ ھملر (جرمن پولیس کے سربراہ اور ایس ایس کے ریخ لیڈر) کے محفوظ ریکارڈ، جرمن دفتر خارجہ اور بہت سے دیگر ریکارڈ شامل تھے۔

اگرچہ مرکزی فائلوں کو ضائع کر دیا گیا تھا تاہم جو ریکارڈ حاصل کئے جا سکے تھے اتحادی اُن سے واقعات کو ازسرنو مرتب کرنے میں کسی قدر کامیاب ہو گئے۔ مثال کے طور پر ریخ سیکیورٹی مین آفس (آر۔ ایس۔ ایچ۔ اے) کے ریکارڈ پراگ کے علاقائی صدر دفتر کے تہ خانے میں جلا دئے گئے تھے مگر بیشتر آر۔ ایس۔ ایچ۔ اے ریکارڈ کی نقول جرمنی کے تمام علاقوں میں موجود مقامی گسٹاپو (خفیہ ریاستی پولیس) کی فائلوں میں موجود پائی گئیں اور اُنہیں وہاں سے حاصل کر لیا گیا۔ حاصل کی گئی اِن جرمن دستاویزات سے نازی ریاست کی پالیسیوں اور اقدامات کا ریکارڈ فراہم ہوا۔ وانزے پروٹوکول کانفرنس جس میں ایس۔ ایس کی قیادت میں وقوع پزیر ہونے والے ہالوکاسٹ میں مختلف جرمن ریاستی اداروں کے تعاون کو قلمبند کیا گیا اور پھر آئن سیٹزگروپن کی رپورٹوں میں گشتی قاتل یونٹوں کی پیش رفت کی تفصیل درج تھی۔ 1941 میں سوویت یونین پر حملے کے دوران یہودی شہریوں کے قتل کے ساتھ ساتھ دوسری کارروائیاں بھی اُن دستاویزات میں درج تھیں جو ہالوکاسٹ سے متعلق تھیں۔ یہ تمام دستاویزات نیورمبرگ کے مقدمے میں پیش کی گئیں۔

نیورمبرگ مقدمے کے دوران نازی جرمنی کی اپنی کارروائیوں کی فلمبندی اُن جرائم کا ثبوت ثابت ہوئی۔ 1920 کی دہائی میں نازی پارٹی کے آغاز کے اولین دور سے دوسری عالمی جنگ کے فوجی حملوں اور ظلم و ستم کے انتہائی وضاحتی بیان جرمن فوٹوگرافروں اور کیمرہ کرو نے (اکثر اوقات فخر کے ساتھ) ریکارڈ کئے جسے وہ اپنے نظریات کی تکمیل قرار دیتے تھے۔ جنگ کے اختتام کے قریب اتحادی فوجی عملے نے اس فوٹوگرافی اور فلمبندی کے ریکارڈ کا پتہ لگانے، اُسے جمع کرنے اور اس کی فہرستیں مرتب کرنے کیلئے انتھک کام کیا۔

نازی ریاست کی ایماء پر ہونے والی سرکاری فوٹوگرافی اور تیار کی گئی فلموں کے علاوہ جرمن فوجیوں اور پولیس نے یہودیوں اور دوسرے شہریوں کے خلاف جرمن کارروائیوں کی فلمبندی کرتے ہوئے متعدد تصویریں بنائیں۔ اُنہوں نے یہودیوں کی کھلم کھلا تزلیل، اُن کی ملک بدری، قتل عام اور حراستی کیمپوں میں اُن کی قید کی صورتحال کو دستاوہز کی شکل دی۔ یہ سب کچھ نازیوں کے جنگی جرائم کی ایک مضباط شہادت بن گئی جسے نیورمبرگ کے مقدمے میں پیش کیا گیا۔ مثال کے طور پر اتحادی استغاثہ نے "سٹروپ رپورٹ" پیش کی جس میں اضافی حصے کے طور پر تصویروں کا ایک البم شامل کیا گیا۔ یہ تصویریں ایس۔ ایس اور پولیس کے اعلیٰ افسر یورگن سٹروپ کے احکام پر لی گئیں جو 1943 کے موسم بہار میں وارسا گھیٹو کی بغاوت کے نتیجے میں ہونے والی تباہکاری کی دستاویزات تھیں۔ سٹروپ کے اپنے اندازے کے مطابق اُن کی فوجوں نے 55 ھزار سے زائد یہودیوں کو گرفتار کیا اور کم سے کم سات ھزار کو قتل کر دیا گیا جبکہ مزید سات ھزار کو ٹریبلنکا قتل گاہ میں بھیج دیا۔

امریکی آرمی سگنل کور نے مذید بصری دستاویزات پیش کیں جو دراصل دوسری عالمی جنگ میں امریکی کارروائیوں کی تصاویر اور فلمبندی تھی لیکن اُنہوں نے نازی ظلم و ستم اور ہالوکاسٹ کی شہادت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ نازیوں کے قبضے سے آزاد کئے گئے حراستی کیمپوں کی تصویریں اور فلمبندی آرنلڈ ای۔ سیموئلسن اور جے مالن ہیسلوپ جیسے فوجی فوٹوگرافروں نے کی تھی۔ اِن میں سے متعدد تصاویر کو بعد اذاں امریکہ اور دوسرے ملکوں میں خبر رساں اداروں تک پہنچایا گیا جہاں سے اُنہوں نے دنیا کو نازی ازم کی ہولناکیوں اور حراستی کیمپوں کے قیدیوں کی اذیت سے مطلع کیا۔

29 نومبر 1945 کو آئی۔ ایم۔ ٹی استغاثہ نے گھنٹے بھر دورانیے کی ایک فلم متعارف کرائی جس کا موضوع تھا "نازیوں کے حراستی کیمپ"۔ جب پیلس آف جسٹس یعنی انصاف کے محل میں فلم کے بعد روشنی ہوئی تو وہاں جمع افراد پر مکمل خاموشی طاری تھی۔ اِس بصری ثبوت کا انسانی سطح پر اثر اس قدر شدید تھا کہ نیورمبرگ مقدمے کا رخ ہی تبدیل ہو گیا۔ اِس ثبوت نے گویا ہالوکاسٹ کو کمرہ عدالت کے اندر پیش کر دیا۔

ہالوکاسٹ کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے ہیں اُس کی بنیاد جرم کا ارتکاب کرنے والوں اور جرم سے بچ نکلنے والوں کی عینی شہادت پر ہے۔ اِس میں آشوٹز میں ہلاک کرنے کی تنصیبات، آئن سیٹزگروپن اور ایس۔ ایس اور پولیس کے دوسرے یونٹوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے ظلم و ستم، وارسا گھیٹو کی تباہی اور ہلاک کئے گئے 60 لاکھ یہودیوں کے بارے میں اعداد و شمار کی تفصیل بھی شامل ہے۔ قتل و غارت گری کے سلسلے میں براہ راست ملوث بیشتر افراد جنگ کے خاتمے سے قبل ہی موت کا شکار ہو گئے تھے لیکن اتحادیوں نے مقدمے کی تیاری کیلئے متعدد ایسے افراد سے پوچھ گچھ کی جو اُس وقت زندہ تھے۔ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں سے کسی نے بھی ہالوکاسٹ سے انکار نہیں کیا۔ بیشتر افراد نے محض قتل و غارت گری میں اپنی ذمہ ساری کو کم سے کم ظاہر کرنے کی کوشش کی۔

ظلم و ستم کی کارروائیوں کا ارتکاب کرنے والے تین کلیدی مجرموں نے ہالوکاسٹ سے متعلق براہ راست گواہی دی۔ نیورمبرگ کے مقدمے میں شامل نازی حکومت کے سب سے بڑے عہدیدار ہرمین گورنگ نے کھلم کھلا اور بغیر کچھ چھپائے جرمن یہودیوں پر جبر اور ظلم کے بارے میں بتایا جو نازی پارٹی نے 1933 میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے 1939 میں جنگ کے آغاز تک روا رکھا تھا۔ اوٹو اوپلین ڈورف نے اپنی یونٹ آئن سیٹزگروپن ڈی کے بارے میں براہ راست شہادت دی۔ اِس گروپ نے 1941 میں جنوبی یوکرین میں 90 ھزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ آش وٹز کے کمانڈر روڈولف ہوئس نے جنگ کے دوران آشوٹز برکینو قتل گاہ میں دس لاکھ یہودیوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنے کے بارے میں تفصیل بتائی۔ تینوں نے دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے یہ کارروائیاں حکومت کے قانونی احکام کے تحت کی تھیں۔

جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی شہادت اگرچہ بعض اوقات اپنے کھلے انداز کی وجہ سے خوفناک محسوس ہوتی تھیں تاہم قتل و غارت گری سے بچنے والوں کی شہادت ہالوکاسٹ سے انکار کا بہترین توڑ ہے۔ ہالوکاسٹ سے بچنے والوں کو نازیوں کی جنسی نسل کشی کی پالیسیوں کا براہ راست تجربہ رہا۔ اُن کی شہادت ذاتی اور بے ساختہ ہےاور اِس وجہ سے یہ متاثر کن ہے۔ میری کلاڈ ویلینٹ کوٹورئر جیسے ہالوکاسٹ سے بچ نکلنے والے افراد نے نیورمبرگ کے مقادمے کے دوران آشوٹز میں اپنے تجربات کے بارے میں شہادت دی۔ پھر ایلی ویزل جنہوں نے جنگ کے بعد ایک کتاب لکھی جو اُس رات کی کہانی ہے جب اُنہیں 1944 میں ہنگری کے مقبوضہ ٹرانسلوانیا سے آشوٹز جلا وطن کیا گیا۔ اُنہوں نے بھی مقدمے میں شہادت دیتے ہوئے انسانی سطح پر ہونے والے اثرات کا احاطہ کیا۔ ایسی شہادتیں یہ بتاتی ہیں کہ نسل کشی کا ہدف بننے والوں کے احساسات کیا ہوتے تھے۔

یہ دستاویزات، تصاویر، فلمیں اور مجرمین کے ساتھ ساتھ قتل و غارتگری سے بچ نکلنے والوں کی جنگ کے بعد مقدمات میں شہادت سے ہالوکاسٹ کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت فراہم ہوئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔