"نسل کشی" کی اصطلاح 1944 سے قبل انگریزی زبان میں موجود ہی نہيں تھا۔ ایک بہت ہی خاص اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے وہ اجتماعی جرم جو جماعتوں کے خلاف ان کے وجود کو پورے طور پر ختم کرنے کے ارادے سے کئے جاتے ہوں۔ انسانی حقوق، جیسے 1948 میں انسانی حقوق کے لئے اقوام متحدہ کے عالمی بیان میں واضح کئے گئے ہيں، لوگوں کے حقوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1944 میں پولینڈ کے ایک یہودی وکیل نے جس کا نام رافائل لیمکن (1900 - 1959) نے نازیوں کو باقاعدہ قتل کرنے کی پالیسیوں کو بیان کرنے کی کوشش کی جس میں یورپی یہودیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ اس نے "نسل کشی" کی اصطلاح یونانی لفظ جینو اور لاطینی لفظ سائیڈ کو ملا کر بنایا گیا ہے۔ اگلے سال نیورمبرگ، جرمنی میں منعقد کردہ بین الاقوامی فوجی عدالت میں نازیوں کے اعلی لوگوں پر "انسانیت کے خلاف جرائم" کے الزامات لگائے گئے۔ اگرچہ لفظ "نسل کشی" الزام کے ساتھ شامل کیا گيا تھا لیکن بطور ایک بیانیہ اصطلاح کے طور پر نہ کہ قانونی اصصلاح کی حیثیت سے۔

9 دسمبر1948 کو ہولوکاسٹ کے تحت اور خود لیمکن کی انتھک کوششوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے نسل کشی کے جرم کی سزا اور احتیاط پر معاہدہ کی توثیق کی اور اس کی منظوری دی۔ اس معاہدہ نے "نسل کشی" کو عالمی جرم کے طور پر تسلیم کیا جس کی "روک تھام اور سزا" دینے کے لئے فریق ممالک معاہدہ کرتے ہيں۔ جب کہ جماعت کو تشدد کا شکار بنانے کے بہت سے واقعات تاریخ میں ہو چکے ہیں۔ اس اصطلاح کی قانونی اور بین الاقوامی حوالے سے دو علیحدہ تاریخی ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے: اصطلاح کے بننے سے لیکر اس کی بین الاقوامی قانون میں شمولیت تک (1944-1948) اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے وقت سے بین الاقوامی مجرم محکمہ کے قیام کے ساتھ نسل کشی کے جرم کی سزا (1991-1998) دینے تک ہے۔ نسل کشی کو روکنا، جو معاہدے کی دوسری اہم ضرورت ہے، ایک ایسا چیلنچ ہے جس کا سامنا آج تک اقوام اور افراد کر رہے ہيں.