کوئی یہ نہيں پوچھتا تھا کہ کون یہودی ہے اور کون نہیں ہے۔ کوئی یہ نہيں پوچھتا تھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے تھا۔ کوئی یہ سوال نہیں کرتا تھا کہ آپ کا باپ کون تھا یا آپ کے پاس پیسے تھے یا نہيں۔ اُنہوں نے بس ہمیں قبول کر لیا، ہمیں محبت کے ساتھ لے گئے، بچوں کو پناہ دی۔ اکثر تو اپنے والدین کے بغیر تھے۔ بچے جو رات کو ڈراؤنے خوابوں کی وجہ سے روتے تھے۔۔ الزبتھ کوئینگ۔ کافمین، لی چیمبون میں ایک سابق پناہ گذیں بچہ

دسمبر 1940 سے ستمبر 1944 کے درمیان فرانس کے گاؤں لی چیمبون۔سر۔لیگنان(آبادی 5000) اور اس کے مضافات کے گاؤں (آبادی 24000) نے تقریباً 5000 لوگوں کو پناہ دی۔ اس تعداد میں تقریباً 3000-3500 یہودی بھی شامل تھے، جو وکی حکام اور جرمنوں سے فرار ہو رہے تھے۔

ریفارمڈ چرچ آف فرانس کے پادری آندرے ٹروکمے، اُن کی بیوی میگڈااور اُن کے معاون پادری ایڈورڈ تھیس کی سربراہی کی قیادت میں ان دیہات کے رہنے والوں نے گھروں، ہوٹلوں، فارموں اور اسکولوں میں لوگوں کو پناہ دی۔ انہوں نے پناہ گزینوں کے لئے جعلی شناختی اور راشن کارڈ بنائے، اور چند ایک کو سرحد پار کروا کر غیر جانبدار ملک سوٹزرلینڈ بھی لے گئے۔ بچانے کے یہ عمل ہولوکاسٹ کے زمانے میں بہت غیر معمولی تھے کیونکہ ان میں ایک پورے علاقے کی آبادی کی اکثریت شامل تھی۔

پس منظر

لی چیمبون ۔سر۔لیگنان جنوب مرکزی فرانس میں واقع ایک پہاڑی علاقے اوورگنے کے ہوٹے لوئرے ڈپارنٹمنٹ میں سطح مرتفع ویواریس کا ایک گاؤں ہے۔ نومبر 1942 تک وہ فرانس کے غیرمقبوضہ علاقے میں واقع تھا۔ لی چیمبون اور اس کے مضافات کی تاریخ نے وکی دور اور جرمن قبضے کے دوران اس کے باشندوں کے کردار کو متاثر کیا۔ھیوگوئناٹ(کیلوینسٹ) پروٹسٹنٹس کے طور پر، انہيں سولہویں صدی سے اٹھارہويں صدی کے دوران فرانس کے کیتھلک حکام کی طرف سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں انہوں نے امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا نشانہ بننے سے بچنے والے ہم مذہب لوگوں کو بھی پناہ دی۔ لی چیمبون میں کئی افراد یہودیوں کو "منتخب قوم" مانتے تھے، اور جب وہ خطرے سے گھرے ہوئے لوگوں کو 300 کلومیٹر دور سوٹزر لینڈ کی سرحد کی جانب لے جاتے، رہنما اس بات سے خوب باخبر تھے کہ وہ اسی راستے پر سفر کر رہے ہیں جس پر ھیوگوئنات برادری نے صدیوں پہلے سفر کیا تھا۔

سطح مرتفع ویواریس پر ایک مذہبی اقلیت کی وجہ سے درپیش تکالیف کی مجموعی یادوں کی وجہ سے لوگ اب بھی آمر حکومتوں پر اعتبار نہيں کرتے تھے۔اس علاقے کے زيادہ تر ھیوگوئناٹ لوگوں نے وکی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے، مارشل پیٹین (وکی حکومت کے ریاستی سربراہ) کا حلف اُٹھانے اور اس کے اعزاز میں گرجا گھر کی گھنٹیاں بجانے سے انکار کر دیا۔ جون 1940 میں وکی حکومت قائم ہونے کے بعد ریاسستوں کے درمیان تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرنے کے حامی آندرے ٹروکمے نے حکومت کے خلاف پر امن سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ ٹروکمے اکثر یہود دشمنی کے خلاف پرچار کرتے تھے اور اُنہوں نے 16 اگست کو ایک عوامی خطبے کے دوران جولائی 1942 کو پیرس میں ویلوڈروم ڈی ھائور کے مقام پر یہودیوں کی پکڑ دھکڑ کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ مسیحی چرچ کو گھٹنے ٹیک کر خدا سے اپنی حالیہ غلطیوں اور بزدلی کی معافی مانگنی چاہئیے۔

جبکہ ٹروکمے اور تھیس سطح مرتفع ویواریس میں غیر متشدد بچاؤ کی کارروائی کے متحرک تھے، تاہم اس کوشش میں بہت سے دیگر لوگ بھی شامل ہو گئے جن میں قریبی کلیساؤن سے متعدد پروٹیسٹنٹ پادریوں کے علاوہ کیتھلک، امریکن کوئیکر، یہودی، سوس پروٹیسٹنٹ، ایوینجلیکل، محتلف عقیدوں کے طالب علم اور ملحد شامل تھے۔

> بچاؤ

بچاؤ کی منظم کوشش 1940 کے موسم سرما میں اس وقت شروع ہوئی جب پادری ٹروکمے نے مارسے میں قائم امریکن فرینڈز سروس کمیٹی (کوئیکرز) سے رابطہ قائم کر کے جنوبی فرانس میں قائم حراستی کیمپوں میں بند تقریباً 30 ہزار یہودیوں کو امدادی سامان فراہم کرنے میں مدد دینے کی کوشش کی۔ ٹروکمے نے برنز چالمرز کے ساتھ ایک کاروباری تعلق شروع کیا۔ برنز چالمرز ایک نامور امریکی کوئیکر تھا جس نے پادری کو بتایا کہ کوئیکرز کیمپوں میں قید ہونے والوں کو رہا تو کر سکتے تھے لیکن پھر اس کا کوئی فائدہ نہيں تھا کیونکہ کوئی بھی انہيں پناہ دینے کو تیار نہیں تھا۔

ٹروکمے نے چالمرز کو یقین دلایا کہ اس کا گاؤں لی چیمبون لوگوں کو پناہ دے گا۔ چالمرز نے گرز، لی ملیز اور ریویسالٹیز وغیرہ جیسے جنوبی کیمپوں سے کئی یہودیوں کو، خاص طور پر بچوں کو رہا کروایا۔ اس منظم کوشش کے ذریعے لی چیمبون پہنچنے والوں کے علاوہ یہودی اور خطرے سے گھرے ہوئے دوسرے لوگ بھی انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپوں کی شکل میں گاؤں پہنچ گئے۔ جیسے ان کو معلوم ہوا کہ سطح مرتفع ویواریس پر ان کو پناہ مل سکتی ہے۔

پناہ گزیں زیادہ تر پردیسی تھے جن کے پاس فرانسیسی شہریت نہيں تھی۔ ان میں سے بیشتر بچے تھے۔ انہیں لی چیمبون کے آس پاس پہاڑی علاقوں کے چھوٹے انفرادی گاؤں اور فارموں میں پھیلا دیا گيا تھا۔ بچوں کی دیکھ بھال کی ایجنسی او ایس ای (اوورے ڈی سیکورز اوکس اینفنٹس) ایک فرانسیسی یہودی بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی ایجنسی تھی جس نے بچوں کو لی چیمبون لے جانے اور انہيں گھروں ، بورڈنگ ہاؤسوں اور خاص طور پر انہيں پناہ دینے کے لئے قائم کئے گئے سات گھروں میں لے جانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ کوئیکر تنظم، امریکی کانگریگیشنلسٹ، سوئس ریڈ کراس اور سویڈن جیسی حکومتوں نے بھی گھروں کا انتظام برقرار رکھنے کے لئے چندہ دیا۔ پناہ گزینوں کو کھانے پینے کا سامان، کپڑے اور جعلی سناختی دستاویز دی گئیں۔ بچوں کو اسکول بھی بھیجا گیا اور انہوں نے نوجوانوں کی تنظیموں میں بھی حصہ لیا۔ عام زندگی کا تصور پیش کرنے کے لئے اور برادریوں میں یہودیوں کی موجودگی کو چھپانے کے لئے بچے اکثر پراٹسٹنٹ خطبے بھی سنتے تھے۔ پھر بھی ٹروکمے ان یہودیوں کو خاموشی سے یہودی خطبے منعقد کرنے کی بھی ترغیب دیتا رہتا تھا۔

جب بھی گاؤں والوں کو وکی پولیس یا جرمن سیکورٹی پولیس کے چھاپوں کی خبر ملتی، وہ پناہ گزیروں کو شہر سے باہر اور دور لے جاتے اور کچھ کو سوٹزلینڈ کی سرحد تک بھی لے جاتے۔ سی آئی ایم اے ڈی ای (کومائیٹ انٹر۔موومنٹ اوپرے ڈس ایویکوئیز یعنی بے دخل ہونے والے افراد کی سرگرمیوں کو مربوط بنانے کی تنظیم ایک پراٹسٹینٹ پناہ گزیں تنظیم تھی جو خاص طور پر سوٹزرلینڈ بھاگ جانے کے راستے تلاش کرنے کے لئے کافی کام کرتی تھی۔ ایک عام زیرزمین راستہ لی چیمبون سے اینیماس تک اور پھر وہاں سے سوٹزرلینڈ کی سرحد تک جاتا تھا۔

وکی حکام اور جرمنوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بننے والے دوسرے پناہ گزیں بھی یہودیوں کے پیچھے پناہ کی تلاش میں لی چیمبون پہنچ گئے۔ ان میں حراستی کیمپوں سے فرار ہونے والے ہسپانوی رپبلکن، نازیوں کے مخالف جرمن اور جبری مشقت کے لئے جرمنی بھیجے جانے سے بچنے کے خواہاں فرانسیسی جوان بھی شامل تھے۔ اس علاقے میں فرانسیسی مدافعت کے ممبران کو پھی پناہ دی گئی جو 1942 میں علاقے میں سرگرم تھے۔

جرمن قبضے کے تحت

مقامی لوگوں کے اتحاد کی وجہ سے وکی حکام اس علاقے میں قدم پھونک پھونک کر ہی رکھتے تھے۔ کبھی کبھار وکی پولیس کے افسران تلاشی لینے سے پہلے گاؤں والوں کو غیررسمی طور پر اطلاع بھی دے دیتے تھے۔ نومبر 1942 میں جنوبی فرانس پر جرمنی کے قضبے کے بعد یہ سب تبدیل ہو گیا۔ 13 فروری سن 1943 کو فرانسیسی پولیس نے پادری ٹروکمے اور تھیس کے ساتھ ساتھ مقامی پرائمری اسکول کے ہیڈماسٹر راجر ڈارسیسیک کو گرفتار کر کے لیموجز سینٹ پال ڈی آئی جیوکس کے کیمپ میں داخل کر دیا۔فرانسیسی حکام نے ان تینوں کو اٹھائیس دنوں کے بعد رہا کیا، اور انہوں نے 1943 تک اپنی کارروائیاں اس وقت تک جاری رکھیں جب دوبارہ گرفتاری کی افواہوں کی وجہ سے انہيں چھپنا پڑا۔ اس وقت میگڈا ٹروکمے نے امدادی تنظیم کی قیادت سنبھالی۔

29 جون 1943 کو جرمن پولیس نے ایک مقامی سیکنڈری اسکول پر چھاپا مار کر 18 طلبا کو گرفتار کر لیا۔ جرمنوں نے ان میں سے پانچ یہودیوں کی شناخت کی اور انہيں آشوٹز بھیج دیا گیا جہاں وہ مارے گئے۔ جرمن پولیس نے ان کے استاد ڈینیل ٹروکمے کو بھی گرفتار کیا جو پادری ٹروکمے کے بھائی تھے۔ انہيں جلاوطن کر کے لوبلن / مجدانیک کے حراستی مرکز میں بھیج دیا گیا جہاں ایس ایس نے انہیں مار دیا۔ راجر لی فاریسٹئر، لی چیمبون کے ڈاکٹر جعلی دستاویزات حاصل کرنے میں یہودیوں کی مدد کرتے تھے۔ انہيں 20 اگست 1944 کو لائیون میں گسٹاپو کے حکم کے مطابق مانٹ لوک کے جیل میں گرفتار کر کے گولی مار دی گئی۔

سطح مرتفع ویواریس کو 2 سے 3 ستمبر 1944 کو فری فرینچ فرسٹ بکتر بند ڈویژن نے رہا کر دیا۔

اعتراف

1990 میں اسرائیل کی ریاست نے لی چیمبون اور اس کے مضاقات میں رہنے والے لوگوں کو اجتماعی طور پر "قوموں میں راست باز" کہ کر ان کی کوششوں کا اعتراف کیا۔ اس کے علاوہ دسمبر 2007 میں اسرائلیوں نے لی چیمبون اور اس کے مضافات میں رہنے والے 40 افراد کو "راست باز" کا خطاب دیا۔ فرانسیسی صدر جیکس شیراک نے 8 جولائی 2004 کو گاؤں کی بہادری کا اعتراف کیا۔ جنوری 2007 میں فرانسیسی حکومت نے پیرس کے پنتھین میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں لی چیمبون کے رہنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

لی چیمبون اور اس کے پڑوسی گاؤں ہولوکاسٹ کے دوران مجموعی کوشش کی ایک غیر معمولی مثال پیش کرتے ہيں۔