دوسری عالمی جنگ کے دوران متعدد جرمن ڈاکٹروں نے قیدی کیمپوں کے ھزاروں قیدیوں پر اُن کی مرضی کے بغیر تکلیف دہ اور اکثر اوقات مہلک تجربات کئے۔

تھرڈ ریخ کے تسلط کے دوران غیر اخلاقی طور پر کئے گئے اِن تجربات کو تین قسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ پہلی قسم میں ایسے تجربات آتے ہیں جن کا مقصد اہم فوجی عملے کی بقا کیلئے سہولیات بہم پہنچانا تھا۔ ڈاخو میں جرمن فضائیہ اور ہوا بازی کے تجرباتی ادارے کے ڈاکٹروں نے کم دباؤ والے ایک کمرے میں کو استعمال کرتے ہوئے فضائی بلندی کے تجربات کئے جن کا مقصد یہ جاننا تھا کہ کسی حادثے میں تباہ ہونے والے طیارے سے عملہ زیادہ سے زیادہ کتنی بلندی سے پیراشوٹ کے ذریعے بحفاظت کود سکتا ہے۔ پھر سائنسدانوں نے منجمد کرنے والے تجربات کئے تاکہ تیز بخار کا مؤثر علاج دریافت ہو سکے۔ اُنہوں نے قیدیوں کو استعمال کرتے ہوئے متعدد تجربات کئے جن کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ سمندر کے پانی کو پینے کے قابل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

دوسری قسم ایسے تجربات کی تھی جن کا مقصد میدان جنگ میں زخمی ہونے والے جرمن فوجی اور قابض عملے کے ارکان کی بیماریوں اور زخموں کے علاج کیلئے دوائیں اور علاج معالجے کے طریقے دریافت کرنا تھا۔ سیخسین ہوسن، ڈاخو، نیٹزویلر، بوخن والڈ اور نیوئن گامے کے حراستی کیمپوں میں سائنسدانوں نے ملیریا، ٹائفس، تپدق، ٹائفائیڈ، زرد بخار اور چھوت کی بیماری ہیپاٹائٹس جیسے متعدی امراض کی روک تھام اور علاج کیلئے حفاظتی کمپاؤنڈ اور سیرم کے تجربات کئے۔ ریونزبروئک کیمپ میں ہڈیوں کی پیوندکاری اور نئی دریافت کی جانے والی سلفا (سلفانیلامائیڈ) ادویات کے مؤثر ہونے کے تجربات کئے۔ نیٹزویلر اور سیخسین ہوسن کیمپوں میں قیدیوں پر فوسجین اور مسٹرڈ گیس کو استعمال کرتے ہوئے ان کی تریاک دریافت کرنے کی کوشش کی گئی۔

طبی تجربات کی تیسری قسم میں نازیوں کے عالمی نظریے کے نسلی اور نظریاتی عوامل میں پیش رفت کی کوشش کی گئی۔ اِن میں سب سے زیادہ رسوائے زمانہ اور بدنام تجربات جوزف مینگلے نے آشوٹز کیمپ میں کئے۔ مینگلے نے جڑواں بچوں پر بھی تجربات کئے۔ اُس نے روما (خانہ بدوشوں) پر پلازمہ کے تجربات بھی کئے۔ ایسے ہی تجربات وارنر فشر نے سیخسین ہوسن میں کئے۔ اِن تجربات کا مقصد اِس بات کا پتہ لگانا تھا کہ مختلف نسلیں مختلف متعدی امراض کا سامنا کیسے کرتی ہیں۔ اسٹراسبرگ یونیورسٹی میں آگسٹ ھرٹ کی تحقیق کا مقصد بھی یہودیوں کو"نسلی طور پر گھٹیا" ثابت کرنا تھا۔

دیگر انسانیت سوز تجربات نازیوں کے نسلی مقاصد کو فروغ دینے کیلئے کئے جانے والے سلسلے وار تجربات تھے جو بنیادی طور پر آشوٹز اور ریونزبرگ کیمپوں میں کئے گئے۔ وہاں سائینسدانوں نے یہودیوں، روما (خانہ بدوشوں) اور ایسے دیگر گروپوں کے افراد کی وسیع پیمانے پر نس بندی کیلئے کم خرچ اور کارآمد طریقوں کو آزمایا گیا جنہیں نازی لیڈر نسلی یا جینیاتی لحاظ سے ناپسند کرتے تھے۔