ستمبر 1935 میں نازی جرمنی میں دو مختلف قوانین منظور کئے گئے جنہیں مجموعی طور پر نیورمبرگ قوانین کے طور پر جانا جاتا ہے: جرمن سلطنت کی شہریت کا قانون اور جرمن خون اور جرمن عزت و وقار کے تحفظ کا قانون۔ یہ قوانین نازی نظریے کے حوالے سے بہت سے نسلی نظریات کا حاطہ کرتے تھے۔ ان قوانین کا مقصد جرمنی میں یہودیوں پر منظم ظلم و ستم کے لئے ایک قانونی جواز فراہم کرنا تھا۔

ایڈولف ہٹلر نے 15 ستمبر 1935 کو نیورمبرگ قوانین کا اعلان کیا۔ جرمنی کی پارلیمنٹ رائخ سٹاگ نے، جو اس وقت مکمل طور پر نازی نمائندوں پر مشتمل تھی، ان قوانین کی منظوری دی۔ یہود دشمنی نازی پارٹی کے لئے مرکزی اہمیت کی حامل تھی۔ اس لئے ہٹلر نے نیورمبرگ، جرمنی میں نازی پارٹی کی سالانہ ریلی کے موقع پر پارلیمنٹ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا۔

سلطنت کی شہریت کا قانون

نازی ایک طویل عرصے سے ایک ایسے قانونی جواز کی تلاش میں تھے جو یہودیوں کی شناخت مذہبی حوالے کے بجائے نسلی طور پر یہود دشمنی کے حوالے سے کرے۔ جرمنی میں موجود یہودیوں کو محض دیکھنے سے یہودی کے طور پر ان کی شناخت کرنا آسان نہیں تھا۔ بہت سے یہودی روایتی طور طریقوں کو چھوڑ کر اور اپنی ظاہری شکل و صورت میں تبدیلی کر کے معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہو چکے تھے۔ کچھ یہودیوں نے عملی طور یہودی طور طریقے ترک کر دئے تھے اور اپنے غیر یہودی ہمسائیوں کے ساتھ عیسائی تہوار بالخصوص کرسمس منانا شروع کر دیا تھا۔ مزید بہت سے یہودیوں نے عیسائیوں سے شادیاں کر لی تھیں یا پھر خود عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا۔

جرمن سلطنت کے شہریت کے قانون اور اس کے نفاذ کے حوالے سے بہت واضح احکام کے مطابق صرف "جرمن یا اُن سے خونی رشتہ" رکھنے والے افراد ہی جرمن شہری ہو سکتے تھے۔ قانون نے واضح کر دیا تھا کہ کون جرمن ہو سکتا ہے اور کون نہیں، اور کون یہودی ہے اور کون نہیں۔ نازیوں نے مذہبی اور ثقافتی برادری سے وابستگی کی بنیاد پر یہودی ہونے کا روایتی تصور مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بجائے اُن کا دعویٰ تھا کہ یہودی پیدائش اور خون کے حوالے ایک نسل ہیں۔

نازی نظریات کے مسلسل دعووں کے باوجود یہودیوں کی بطور ایک نسل وضاحت کرنے کی کوئی درست سائنسی بنیاد نہیں تھی۔ لہذا نازی قانون سازوں نے نسل کی وضاحت کرنے کے لئے خاندانی شجرہ نسب کو اہمیت دی۔ ایسے افراد قانونی طور پر یہودی قرار دئے گئے جن کی تین یا اس سے زیادہ پشتیں یہودی مذہبی برادری میں پیدا ہوئی تھیں۔ جن افراد کے دادا دادی یہودی مذہبی برادری میں پیدا ہوئے، اُنہیں "نسلی" طور پر یہودی قرار دیا گیا۔ اُن کی "نسلی" حیثیت اُن کے بچوں اور پوتے پوتیوں کو منتقل ہوئی۔ قانون کے تحت جرمنی میں یہودی جرمن شہری نہیں تھے بلکہ "ریاست کے محکوم باشندے" تھے۔

جرمنی میں ایک یہودی کی حیثیت کے بارے میں قانون دسیوں ہزاروں افراد کا احاطہ کرتا تھا جو خود کو یہودی نہیں سمجھتے تھے یا جن کے یہودی برادری سے نہ تو مذہبی تعلقات تھے اور نہ ہی ان کے ثقافتی روابط تھے۔ مثال کے طور پر اس قانونی جواز کے تحت ایسے افراد بھی یہودی قرار دئے گئے جنہوں نے عیسائیت کو ترک کر کے یہودی مذہب اپنا لیا تھا۔ اس قانون کے مطابق ایسے لوگ بھی یہودی تھے جن کے والدین یا دادا دادی نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ اس قانون نے ایسے تمام افراد کو شہریت سے محروم کر دیا اور اُن کے بنیادی حقوق صلب کر لیے۔

یہودیت کی تعریف اُس وقت مذید پیچیدگی اختیار کر گئی جب معاملہ جرمنی میں رہنے والے ایسے افراد کا آیا جو نیرمبرگ قانون کے تحت نہ تو جرمن تھے اور نہ یہودی۔ یعنی ایسے افراد جن کی صرف ایک یا دو پشتیں یہودی مذہبی برادری میں پیدا ہوئیں۔ ان "مخلوط النسل" افراد کو مشلنگ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اُنہیں وہی حقوق حاصل تھے جو "نسلی" جرمنوں کو حاصل تھے تاہم بعد میں ہونے والی قانون سازی کے ذریعے اُن کے حقوق کو مسلسل کم کیا جاتا رہا۔

جرمن خون اور جرمن عزت و وقار کے تحفظ کا قانون

دوسرے نیورمبرگ قانون یعنی جرمن خون کے تحفظ اور جرمن عزت و وقار کے قانون نے یہودیوں اور غیر یہودی جرمنوں کے درمیان شادی پر پابندی لگا دی۔ اس نے ان کے مابین جنسی تعلقات کو بھی جرم قرار دے دیا۔ ان تعلقات پر راسن شاندے یعنی "نسل کی آلودگی" کا لیبل لگایا گیا۔

اس قانون کے تحت یہودیوں پر 45 سال سے کم عمر جرمن خواتین کو ملازمہ رکھنے سے منع کر دیا گیا کیونکہ اُن کے خیال میں یہودی مرد ایسی ملازماؤں کو نسلی بے حرمتی کا ارتکاب کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ ہزاروں لوگوں کو نسلی بے حرمتی کی پاداش میں سزا سنائی گئی یا انہیں غائب کر کے حراستی کیمپوں میں پہنچا دیا گیا۔

نیورمبرگ قوانین کی اہمیت

نیورمبرگ قوانین نے آزادی کے عمل کو الٹا کر دیا حالانکہ جرمنی میں یہودیوں کو معاشرے میں مکمل رکن اور ملک کے برابر شہری کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے قانونی طور پر جرمن اور یہودی کے درمیان فرق پیدا کر کے مستقبل میں یہود دشمن اقدامات کی بنیاد رکھ دی۔ تاریخ میں پہلی بار یہودیوں کو اُن کے عقیدے کے بجائے اس بات پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا کہ پیدائشی طور پر وہ یا اُن کے والدین کیا تھے۔ نازی جرمنی میں عقیدے کا کوئی اظہار اور کوئی فعل یا بیان کسی یہودی کو جرمن فرد میں تبدیل نہیں کر سکتا تھا۔ بہت سے جرمنوں نے جنہوں نے کبھی بھی یہودی مذہب کی عملی طور پر پیروی نہیں کی یا جنہوں نے سالوں سے ایسا نہیں کیا تھا، خود کو نازی دہشت گردی کی پکڑ میں محسوس کیا۔

حالانکہ نیورمبرگ قوانین نے خاص طور پر صرف یہودیوں کا ذکر کیا، ان قوانین کا اطلاق جرمنی میں رہنے والے سیاہ فام افراد اور روما (خانہ بدوشوں) پر بھی کر دیا گیا۔ یہودیوں، سیاہ فام اور روما کی نسلی طور پر اجنبی کی حیثیت سے کی گئی تعریف سے جرمنی میں اُن پر ظلم و ستم روا رکھنے میں مدد ملی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمن اتحاد میں شامل یا جرمنی پر انحصار کرنے والے ممالک نے بھی نیورمبرگ قوانین سے ملتے جلتے خود اپنے قوانین وضع کر لیے۔ 1941 تک اٹلی، ہنگری، رومانیہ، سلوواکیہ، بلغاریہ، وکی فرانس اور کروشیا سب نے جرمن نیورمبرگ قوانین کی طرز پر یہود مخالف قانون بنا لیے۔