گھیٹو یعنی یہودی بستیوں میں ادیب اور شاعر
جرمن حکام نے 1939 کے آغازمیں پولینڈ کے یہودیوں کو گھیٹو یا الگ کر دئے گئے مقامات پر محدود کر دیا۔ یہ وہ ممنوعہ علاقے تھے جنہیں ابتداء میں یہودیوں کو غیر یہودیوں سے الگ کرنے کیلئے مخصوص کیا گیا تھا۔ بعد اذاں یہی گھیٹو یعنی یہودی بستیاں یورپی یہودیوں کے خاتمے کیلئے استعمال ہوئیں۔
انتہائی بدحالی میں زندگی گزارتے اور جلاوطنی کے مسلسل خطرے کا سامنا کرتے ہوئے یہودیوں نے اپنی ثقافت اور انسانیت برقرار رکھنے کیلئے گیتوں اور تحریروں کا سہارا لیا۔ پولینڈ میں ایک پوگرام کے ردعمل میں 1938 میں مورڈکائی گیبرٹگ کی لکھی نظم "ایس برینٹ" (یہ جل رہا ہے") کراکاؤ یہودی بستی میں خفیہ مزاحمتی تحریک کا ترانہ بن گئی۔ گیبرٹگ نے کراکاؤ سے لیگیونکی فرار ہونے اور پھر لیگیونکی سے سے کراکاؤ یہودی بستی میں جبری منتقلی کے بعد بھی لکھنا جاری رکھا۔
ویلنا یہودی بستی اور ایسٹونیا میں جبری مشقت کے کیمپوں میں ھرش گلک نے مسلسل مزاحمتی نغمے لکھے۔ اِن میں مشہور گیت "حمایتیوں کا نغمہ" بھی شامل ہے۔ یہ ویلنا کی یونائیٹڈ پارٹیزن تنظیم کا تھیم سانگ بن گیا۔ گلک اسی تنظیم سے تعلق رکھتے تھے۔
مصنفوں اور شاعروں نے فنی اور روحانی سطح پر مزاحمت کا اظہار کیا۔ اسحٰق کالزے نیلسن نے وارسا یہودی بستی میں پر اُمید (رجائیت پسند) نظمیں، ڈرمے اور مضمون لکھے جن میں یہودی تاریخ کے تناظر میں یہودی بستی کی صورت حال کی وضاحت کی گئی تھی۔ 1943 میں کالزے نیلسن کو فرانس کے وٹل کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا جہاں اُنہوں نے "مقتول یہودی افراد کا گیت" تحریر کیا۔ 1944 میں اُنہیں آش وھٹز کیمپ جلاوطن کر دیا گیا جہاں وہ مارے گئے۔
مؤرخ امینیل رنگن بلوم وارسا یہودی بستی کی خفیہ آرکائیو اونیگ شبات کے بانی تھے جہاں وارسا یہودی بستی کی زندگی کا حال بیاں کرنے والی چیزیں ذخیرہ کی گئی تھیں۔ یہودی بستی کے متعدد رہائشی ڈائری لکھتے تھے۔ اِن میں چیم کیپلان بھی شامل تھے۔
جب نازیوں نے شماریاہو کیکزرگنسکی اور ابراہم سلزکیور کو اہم کتب الگ کرنے پر معمور کیا تو ویلنا کے ان دونوں ادیبوں نے تقریباً 8000 چیزیں بچا لیں۔ جنگلوں میں چھپتے چھپاتے اُّنہوں نے حمایتی تحریک کے لوگوں سے انٹرویو کئے اور اُن کے بیانات ریکارڈ کئے۔
1944 کے موسم گرما میں لوڈز نامی یہودی بستی کے خاتمے کے دوران مصنف ایسائیا شپیگل نے اپنی کچھ تحریریں ایک تہہ خانے میں چھپا دیں۔ باقی تحریریں وہ آشوٹز لے گئے جن پر قبضہ کر لیا گیا۔ جنگ کے بعد شپیگل واپس لوڈز آئے اُنہوں نے وہاں چھائی گئی 16 کہانیاں تلاش کر لیں۔ وہ اپنی یادداشت کے سہارے باقی داستانیں رقم کرتے رہے۔
ہالوکاسٹ کے دوران یہودیوں کے تجربات کی عکاسی یہودی بستی میں رہنے والے ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں میں ہوتی ہے۔ مقبوضہ جرمن مشرقی یورپ کی یہودی بستیوں میں گنجائش سے زائد افراد کی بھرمار، صفائی کا انتہائی ناقص نظام اور فاقہ کشی معمول کی بات تھی۔ وہاں ثقافتی سرگرمی مزاحمت کی شکل میں سامنے آئی۔