بچے کی حیثیت سے بل نے ڈچ سرحد کے قریبی جرمن قصبے برگسٹائن فرٹ میں اسکول کی تعلیم حاصل کی۔ جنوری 1933 میں نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد بل کو بڑھتی ہوئی سام دشمنی کا سامنا کرنا پڑا اور ایک مرتبہ یہودی اسکول جاتے ہوئے ایک لڑکے نے اُن پر چاقو سے حملہ کیا۔ 1936 میں وہ اور اُن کا خاندان جرمنی چھوڑ کر نیدرلینڈ چلا آیا جہاں اُن کے رشتہ دار موجود تھے اور وہ محسوس کرتے تھے کہ وہاں محفوظ رہیں گے۔ تاہم جب مئی 1940 میں جرمنی نے نیدرلینڈ پر حملہ کر دیا تو سام دشمن قوانین نافذ کر دئے گئے جن میں یہودی بیج پہننے کا حکم بھی شامل تھا۔ بل، اُن کی بہن اور اُن کے والدین کو نیدرلینڈ میںویسٹربورک ٹرانزٹ کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ اگست 1943 میں بل کو ویسٹربورک سے جرمن مقبوضہ پولیند میں آشوٹز کیمپ میں جلاوطن کر دیا گیا۔ 1943 کے آخر میں وارسا گھیٹو کی بغاوت ختم کرنے کے بعد اُنہیں آشوٹز سے وارسا پہنچا دیا گیا۔ بل اور دیگر قیدیوں کو گھیٹو کے باقی ماندہ ڈھانچے کو گرانے کے کام کیلئے مجبور کر دیا گیا۔ جب سوویت فوجوں نے پیش قدمی کی، بل کو موت کے ایک مارچ میں ڈال دیا گیا اور ٹرین کے ذریعے اُنہیں جرمنی کے ڈاخاؤ کیمپ میں بھجوا دیا گیا۔اُنہیں اپریل 1945 میں امریکی فوجوں نے رہائی دلائی۔
44 کے اختتام اور 45 کے آغاز کے دوران، مجھے معلوم ہے کہ یہ سردیاں تھیں، بہت زیادہ ٹھنڈ تھی، مجھے یاد ہے۔ اُنہوں نے لاشوں کو نذر آتش نہیں کیا، ہمیں اُن لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنانا تھا۔ ہمارے پاس وہ سامان ڈھونے والی ٹرالیاں تھیں۔۔ آپ نے اُن کو بہت سی تصاویر میں دیکھا ہو گا۔ اُن ٹرالیوں میں لاشوں کے ڈھیر ہوتے تھے۔ اور مجھے یاد ہے کہ ہمیں ایک میل سے زیادہ چلنا پڑتا تھا، شاید اس سے بھی کچھ زیادہ۔ اور یہ پہاڑی راستہ تھا کوئی میدانی علاقہ نہیں تھا۔ اور قیدی یعنی ہمارے لوگ اس قدر خستہ حالت میں تھے، بہت دبلے، وہ بہت ہی مشکل سے چل پاتے تھے۔ ہمیں یہ کام کرنا پڑتا تھا اور میں اُن میں سے ایک تھا۔ اُنہوں نے ہمیں پیٹنا شروع کر دیا کیونکہ ہم زیادہ تیز نہیں چل سکتے تھے۔ یہ غیر معمولی نہیں تھا، یہ روز کا معمول تھا۔ جب وہ شخص کچھ لڑکوں کو پیٹ رہا تھا جو بہت کمزور تھے تو میں نے اُس سے کچھ کہا۔ اُس نے مجھے مارنا شروع کر دیا۔ ہم اُس وقت بہت زیادہ پریشان تھے۔ ہم جانتے تھے کہ صرف کچھ وقت کی بات ہے اور ہم کبھی زندہ نہیں بچ سکیں گے۔ اُنہوں نے یہ بات ہمیں بتا بھی دی تھی۔ اُنہوں نے کہا، "اگر ہم تمہیں زندہ رہنے دیں گے تو تم ہمیں مار ڈالو گے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ ہم تم سب لوگوں کو ختم کر دیں۔" وہ اس طرح کی باتیں کرتے رہتے تھے جو ظاہر سی بات ہے۔ اور ہم 45 کے شروع میں بہت زیادہ پریشان تھے، خوراک بہت ہی کم تھی۔ جرمن اتنے لوگوں کو ہلاک کرنا چاہتے تھے جن کو وہ کر سکتے تھے۔ وہ کچھ پریشان بھی تھے کیونکہ اُن کے جنگی وسائل ختم ہو رہے تھے۔ لہذا اُنہوں نے ہمیں زیادہ مشقت کرنے پر مجبور کیا اُن فیکٹریوں کیلئے جنہیں وہ اب بھی مکمل کرنا چاہتے تھے۔ بادی النظر میں مجھے یقین ہے کہ اُن پر ٹھیکیداروں کا بہت دباؤ ہو گا جو اُن کیلئے کام کر رہے تھے۔ وہ ہم سے جس قدر مشقت لے سکیں، لینا چاہتے تھے۔ یہ بہت مشکل تھا، بہت سے لوگ ہلاک کر دئے گئے۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.