"حتمی حل" کا جائزہ
نازیوں نے اکثر اپنے جرائم چھپانے کیلئے خوش کلامی کا سہارا لیا۔ اُنہوں نے"حتمی حل" کی اصطلاح استعمال کی جس کا مطلب یہودی لوگوں کو نیست و نابود کرنا تھا۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ نازی جرمنی کے لیڈروں نے "حتمی حل" پر عملررآمد کا یقینی طور پر فیصلہ کب کیا تھا۔ یہودیوں کی نسل کشی یا اجتماعی تباہی ایک عشرے تک جاری مسلسل ہڑھتے ہوئے شدید امتیازی اقدامات کا نتیجہ تھی۔
اڈولف ہٹلر کی حکومت کے تحت یہودیوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور انہیں باقی آبادی سے الگ کرنے کے اقدامات پر عملدرآمد مختلف مرحلوں میں کیا گیا۔ سن 1933 میں جرمنی میں نازی پارٹی کے اقتدار حاصل کرنے کے بعدریاستی سطح پر اختیار کی گئی نسل پرستانہ پالیسی کے نتیجے میں یہود مخالف قانون سازی، اقتصادی بائیکاٹ اور کرسٹلناخٹ یعنی "ٹوٹے شیشوں کی رات" پروگرام جیسے ظلم توڑے گئے۔ اِن سب کا مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کو منظم طریقے معاشرے سے الگ کیا جائے اور اُنہیں ملک سے نکال دیا جئے۔
ستمبر 1939 میں پولنڈ پر حملہ کے بعد یعنی دوسری جنگ عظیم کی شروعات کے بعد یہود مخالف پالیسی نے شدت اختیار کر لی اور یورپ کی یہودی برادری کو قیدو بند میں ڈالنے کے بعد اُن کا قتلِ عام شروع کر دیا گیا۔ نازیوں نے پہلے گھیٹو یعنی یہودیوں کو الگ کر کےاُنہیں کنٹرول میں رکھنے کی خاطر بستیاں قائم کیں۔ یہ بستیاں پولینڈ کے مرکزی اور مشرقی علاقے جنرل گورنمنٹ میں قائم کی گئیں اور اِن کی مکمل نگرانی جرمن سویلین حکومت کرتی تھی۔ یہ بستیاں جرمن مقبوضہ پولینڈ کے مغربی علاقے وارتھیگو میں بھی قائم کی گئیں۔ پولینڈ اور مغربی یورپ کے یہودیوں کو اِن بستیوں میں لایا جاتا جہاں بہت کم جگہ پر بہت سے یہودیوں کو انتہائی غلیظ ماحول میں رکھا جاتا اور اُنہیں بہت ہی قلیل مقدار میں خوراک فراہم کی جاتی۔
جون 1941 میں سویت یونین پر جرمن حملے کے بعدایس ایس اور پولیس کے دستوں نے گشتی قاتل دستوں کی صورت میں یہودیوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔ اُن کا ہدف پوری کی پوری یہودی برادریاں تھیں۔ 1941 کے موسمَ خزاں تک ایس ایس اور پولیس نے گشتی گیس ویگنیں بھی استعمال کرنی شروع کر دیں۔ یہ مکمل طور پر سیل کئے ہوئے ٹرک تھے جن کے ایگزاسٹ پائپ کے ذریعے زہریلی کاربن مانو آکسائیڈ گیس اُس سیل شدہ چیمبر میں پھینکی جاتی جہاں یہودیوں کو بند کیا جاتا تھااور یوں وہ سب کے سب ہلاک ہو جاتے۔ گشتی گیس ویگنیں پہلے سے جاری گولی مار کر ہلاک کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ کام کر رہی تھیں۔
سوویت یونین پر حملے کے چار ہفتے بعد 17 جولائی 1941 کو ہٹلر نے ایس ایس کے سربراہ ھائین رِخ ہِملر کو مقبوضہ سوویت یونین میں تمامتر سلامتی کی ذمہ داری سونپ دی۔ ہٹلر نے ہِملر کو اِس بات کا وسیع اختیار دے دیا کہ مستقل جرمن حکمرانی کے لئے کسی بھی قسم کا خطرہ بننے والے کو حقیقی طور پر فوراً ختم کر دیا جائے۔ دو ہفتے بعد 31 جولائی 1941 کو نازی لیڈر ہرمین گورنگ نے ایس ایس کے جنرل رائن ہارڈ ہیڈرِخ کو "یہودی نسل کے مکمل خاتمے" کی تیاری کا اختیار دے دیا۔
1941 کے موسمِ خزاں میں ایس ایس کے چیف ہائین رِخ ہملر نے جرمن جنرل اوڈیلو گلوبوک نِک کو جو لوبلن ڈسٹرکٹ کیلئے ایس ایس اور پولیس کا لیڈر تھا جنرل گورنمنٹ کے یہودیوں کو منظم طریقے سے ہلاک کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کا کام سونپ دیا۔ اِس آپریشن کو آپریشن رائین ہارڈ کا خفیہ نام دیا گیا ۔ یہ نام مئی 1942 میں چیکوسلاواکیہ کے حامیوں کی طرف سے ہلاک کئے جانے والے شخص ہیڈرِخ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ تین قتل گاہیں جن کا کام قتلِ عام کے سوا کچھ نہ تھا پولینڈ میں قائم کی گئیں۔ اِن کا قیام آپریشن رائین ہارڈ، بیلزیک، سوبیبور اور ٹریبلنکا ہی کا ایک حصہ تھا۔
مجدانک کیمپ کو وقتاً فوقتاً جنرل گورنمنٹ کے رہائشی یہودیوں کیلئے قتل گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اِس قتل گاہ میں گیس چیمبر بھی موجود تھے جن میں ایس ایس نے ھزاروں یہودیوں کو ہلاک کیا۔ ہلاک کئے جانے والے یہ افراد بنیادی طور ہر جبری مشقت پر معمور تھے لیکن کمزوری اور نقاہت کے سبب کام کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ ایس ایس اور پولیس نے تقریباً 152000 افراد کو ہلاک کیا جن میں سے بیشتر یہودی تھے۔ تاہم اِن میں چند ھزار بنجارے بھی تھے جنہیں لوڈز سے تقریباً تیس میل شمال مغرب میں وقع چیلمنو کی قتل گاہ میں گیس ویگنوں کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ ہملر نے آشوٹز دوم یعنی آشوٹز برکینو کو ایک قتل گاہ قرار دیا تھا۔ ایس ایس حکام نے آشوٹز برکینو میں مختلف یورپی ملکوں سے تقریباً دس لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا۔
جرمن ایس ایس اور پولیس نے قتل گاہوں میں لگ بھگ 27 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا۔ اِنہیں یا تو گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا یا پھر گولی مار دی گئی۔ مجموعی طور پر "حتمی حل" کا مقصد تمام تر یورپ کے یہودیوں کو گیس کے ذریعے، گولی سے یا دوسرے ذرایع سے ہلاک کرنا تھا۔ ہالوکاسٹ کے دوران تقریباً 60 لاکھ یہودی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ تعداد دوسری جنگِ عظیم سے پہلے کے یورپ میں رہنے والے یہودیوں کے دوتہائی کے برابر تھی۔