Marriage certificate obtained by Dr. Mohamed Helmy

محمد ہیلمی

ڈاکٹر محمد ہیلمی برلن میں رہنے والے ایک مصری ڈاکٹر تھے اور ایک مقامی جرمن خاتون فریدہ سزٹرمین نے نازی جرمنی کے مرکز میں ایک یہودی خاندان کو بچانے کیلئے مل کر کام کیا۔  ڈاکٹر ہیلمی پہلے عرب تھے جنہیں اقوام میں ایک حق پرست شخص کے طور پر جانا گیا۔

 

محمد ہیلمی 25 جولائی، 1901 کو ایک مصری باپ اور جرمن ماں کے ہاں خرطوم میں پیدا ہوئے جو موجودہ دور میں سوڈان کا دارالحکومت ہے۔  ہیلمی 1922 میں جرمنی چلے آئے جہاں اُنہوں نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اُنہوں نے برلن کے رابرٹ کوچ ہسپتال میں کام شروع کیا۔  وہ بعد میں یورولوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔

ہیلمی نے 1933 میں ایڈولف ہٹلر کے برسراقتدار آنے کے بعد ہسپتال سے یہودی ڈاکٹروں کو برخواست ہوتے اور یہود مخالف قوانین پرعملدرآمد ہوتے دیکھا۔ نازیوں کے نسلی قوانین کے مطابق ہیلمی کو تورات میں حضرت نوح کے بیٹے ہیم کی مناسبت سے ’’ہیمائیٹ‘‘ گردانا گیا۔ یہ اصطلاح اُنیسویں صدی سے نسلی سائینس کے مطابق اختیار کی گئی اور اسے شمالی افریقہ، قرن افریقہ اور جنوبی عرب کے تاریخی علاقے کے رہنے والوں کیلئے استعمال کیا گیا۔ ہیمائیٹ قرار دئے گئے افراد کو غیر آریائی تصور کیا جاتا تھا اور یوں اُنہیں ہراسیت اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ہیلمی کو 1938 میں ہسپتال کی نوکری سے برخواست کر دیا گیا  اور اُن پر میڈیکل کی پریکٹس کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔  وہ چونکہ ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا لائسنس حاصل نہیں کر سکتے تھے، ہیلمی نے لائسنس کے بغیر ہی خفیہ طور پر  پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دی۔  اُن کی نسل کی وجہ سے اُن کو اپنی جرمن منگیتر ایمی ارنسٹ سے شادی کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔

5 ستمبر، 1939 کو دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے فوراً بعد غیر ملکیوں کے ساتھ سلوک سے متعلق آرڈننس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا جس میں ’’دشمن ممالک‘‘ کے شہریوں کیلئے لازم قرار دیا گیا کہ وہ پولیس میں اپنا اندراج کرائیں۔  اسی سال اکتوبر سے جرمنی، مقبوضہ آسٹریہ اور مقبوضہ پولینڈ میں رہنے والے عربوں کو گرفتار کرنا، اُنہیں جیل بھیجنا اور نیورمبرگ کے قریب قائم وولزبرگ حراستی کیمپ میں جلاوطن کرنا شروع کر دیا گیا۔ مصریوں کو وولزبرگ حراستی کیمپ میں رکھا گیا تاکہ اُنہیں مصر میں قید جرمنوں کے ساتھ  تبادلے کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ جرمن وزیر خارجہ جواشیم وون ربنٹروپ نے حکم دیا کہ مصر میں قید کئے گئے ہر جرمن کے بدلے میں دو مصریوں کو قید رکھا جائے۔ ہیلمی کو پہلے 3 اکتوبر، 1939 کو قید کیا گیا اور اُنہیں چار ہفتوں تک پولیس کی حراست میں رکھا گیا۔ بعد میں اُنہیں وولزبرگ حراستی کیمپ پہنچا دیا گیا جہاں وہ بہت بیمار ہو گئے۔ اُنہیں اور باقی ماندہ مصریوں کو اوائل دسمبر 1939 میں رہا کر دیا گیا۔

3 جنوری، 1940 کو ایس ایس اور جرمن پولیس کے رائش لیڈر ہائنرش ہملر نے 18 سال سے 60 سال تک کی عمر کے تمام مرد مصریوں کو حراست میں لینے کا حکم جاری کر دیا۔ یوں ہیلمی کوسخت بیمار ہونے کے باوجود دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ وولزبرگ میں زیر حراست رکھے جانے والے بیشتر مصریوں کو جون 1941 سے پہلے رہا نہیں کیا گیا۔ مصر کا سفارتخانہ خراب صحت کی بنا پر ہیلمی کو 1940 میں رہا کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ مئی 1941 میں ہیلمی کو دن میں دو بار پولیس کو رپورٹ کرنے اور ہر چار ہفتے کے بعد اس بات کا ثبوت پیش کرنے پر مجبور کیا گیا کہ وہ حراست میں رکھے جانے کے اہل نہیں ہیں۔

رہا ہونے کے بعد ہیلمی کو شارلیٹنبرگ میں ڈاکٹر جوہنس ویڈیکنڈ کی پریکٹس میں مدد کیلئے بھرتی کر لیا گیا۔ وہاں موجودگی کے دوران اُنہوں نے غیر ملکی کارکنوں کیلئے بیماری کے سرٹفکیٹ جاری کئے تاکہ اُنہیں اُن کے وطن واپس بھیجنے میں مدد کی جا سکے اور جرمنوں کو اُنہیں بھاری کام پر لگانے سے یا ملیشیا سروس میں بھرتی کرنے سے  روکا جا سکے۔  جب برلن کے یہودیوں کی جلاوطنی شروع ہوئی، ہیلمی کی ایک یہودی مریضہ اینا بوروس (بعد میں گٹ مین) کو چھپنے کیلئے جگہ کی تلاش تھی۔ باوجود اس بات کے کہ نازی سرکار نے اُنہیں بھی نسلی طور پر گھٹیا سمجھنے اور کھلے عام نازیوں کے خلاف بات کرنے کی بنا پر ہدف بنا رکھا تھا ، ہیلمی نے بوروس کو جنگ کے اختتام تک چھپائے رکھا۔ خاص طور پر خطرناک لمحات میں جب وہ خود پولیس کی تفتیش کا شکار تھے، ہیلمی نے بوروس کیلئے کسی دوسری جگہ پر چھپنے کا انتظام کر دیا۔ اُنہوں نے بوروس کی حفاظت کیلئے ہر ممکن کوشش کی۔ اُنہوں نے برلن کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ سے ایک سرٹفکیٹ حاصل کیا کہ بوروس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور اُس کیلئے عربی زبان میں شادی کا سرٹفکیٹ بھی حاصل کیا جس میں کہا گیا کہ بوروس کی شادی ہیلمی کے گھر پر ہونے والی ایک تقریب میں ایک مصری شخص سے ہو گئی ہے۔ ہیلمی نے بوروس کی والدہ جولیانا، اُن کے سوتیلے والد جارج ویہر اور دادی سیسیلیے روڈنک کی بھی مدد کی۔  اُنہوں نے اپنی ایک جرمن دوست فریدہ سزٹورمین کے گھر پر روڈنک کو چھپانے کا انتظام کیا۔ ایک برس سے زائد عرصے تک سزٹورمین نے بزرگ خاتون کو چھپائے رکھا اور اپنی خوراک میں سے کچھ اُنہیں دیتی رہی۔

 1944 میں جولیانا ویہر کو گرفتار کر لیا گیا اور پوچھ گچھ کے دوران اُنہوں نے بتا دیا کہ ہیلمی نے اُن کی بیٹی اینا کو چھپا رکھا ہے۔  ہیلمی فوراً اینا کو سزٹورمین کے گھر لے گئے۔ ہیلمی نے بوروس سے یہ لکھوا لیا کہ اُس نے اُنہیں اپنی شناخت کے بارے میں دھوکا دیا اور وہ اپنی والدہ اور خالہ ڈیساؤ کو ڈھونڈنے جا رہی ہے۔ یوں ہیلمی نے گسٹاپو کو وہ خط دکھا کر اسے گرفتار ہونے سے بچائے رکھا۔

اینا بوروس، جولی اور جارج ویہر اور سیسیلیے روڈنک ہیلمی اور سزٹورمین کی مدد سے جنگ کے دوران زندہ رہنے میں کامیاب رہے۔ جنگ کے بعد یہ خاندان نقل مکانی کر کے امریکہ آ گیا۔ ڈاکٹر ہیلمی برلن میں ہی رہے اور بالآخر وہ اپنی منگیتر ایمی سے شادی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ 1982میں اپنی وفات  تک ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 

1950 اور 1960 کی دیہائی کے دوران اینا بوروس اور اُس کے خاندان نے ہیلمی اور سزٹورمین کی طرف سے برلن سنیٹ کو خط لکھے۔ جب برلن آرکائیوز نے یہ خط دریافت کئے تو اُنہوں نے انہیں یاد واشیم کے اقوام میں حق پرست کے محکمے کے سپرد کر دیا۔ محمد ہیلمی اور فریدہ سزٹورمین کو مارچ 2013 میں اقوام میں حق پرست کے اعزاز سے نوازا گیا۔ ہیلمی پہلے عرب تھے جنہیں یہ اعزاز دیا گیا۔ 

اینا گٹمین (بوروس) جنگ کے بعد اُنہیں بچانے والے ڈاکٹر ہیلمی سے ملنے گئیں۔ 

 

Thank you for supporting our work

We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.

گلاسری