قتل کے مراکز میں جلاوطنیاںنازی حکومت نے دوسری جنگ عظیم کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے مشرقی یورپ کی نسلی صورت حال کو زبردستی بدلنے کیلئے ریل ٹرانسپورٹ کو استعمال کیا۔ 1941 میں نازی قیادت نے "حتمی حل" یعنی یورپی یہودیوں کے منظم قتل عام پر عملدرآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ جرمن حکام نے براعظم بھر سے مشرقی یورپ سے یہودیوں کو ان کے گھروں سے منتقل کرنے یا اُنہیں جلا وطن کرنے کیلئے ریل کا نظام استعمال کیا۔ اُنہیں بنیادی طور پر مشرقی یورپ منتقل کیا گیا۔ جب اُنہوں نے منظم طریقے سے خاص طور پر تعمیر کردہ قتل گاہوں میں یہودیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تو جرمن حکام نے ٹرینوں کے ذریعے ان مراکز میں یہودیوں کو منتقل کرنا شروع کر دیا۔ جب ریل گاڑیاں دستیاب نہ ہوتیں یا اگر فاصلہ کم ہوتا تو وہ اُنہیں ٹرک سے یا پیدل منتقل کرتے۔سرکاری اہلکار وسیع تر ٹرانسپورٹ نظام کو ٹرینوں کے ذریعے مربوط کرتے ہیں20 جنوری 1942 کو برلن کے قریب منعقدہ وانسی کانفرنس میں ایس ایس نازی پارٹی اور جرمن ریاست کے حکام نے مقتل گاہوں میں (جنہیں"مراکز مقتل" کے طور پر بھی جانا جاتا ہے) یورپی یہودیوں کی جلاوطنی کو مربوط کیا۔ یہ قتل گاہیں جرمن مقبوضہ پولینڈ میں پہلے سے کام کر رہی تھیں یا زیر تعمیر تھیں۔ کانفرنس کے شرکاء نے اندازہ لگایا کہ "حتمی حل" میں 11 ملین یہودیوں کی جلاوطنی اور قتل کے اقدامات ہوں گے۔ ان یہودیوں میں آئرلینڈ، سویڈن، ترکی اور برطانیہ جیسے جرمن اختیار سے باہر کے علاقوں میں رہائش پزیر یہودی بھی شامل تھے۔اس سطح کی جلاوطنی بہت سی جرمن سرکاری ایجنسیوں میں ربط کی متقاضی تھیں جن میں جرمن سلطنت کی سیکورٹی کا صدر دفتر(رائخ سیچاھائٹس ھوپٹیمٹ ۔ آر ایس ایچ اے)، آرڈر پولیس کا بنیادی دفتر، وزارت نقل و حمل اور دفتر خارجہ شامل تھے۔ جلاوطنی کیلئے آر ایس ایچ اے یا علاقائی ایس ایس اور پولیس کے اعلیٰ اہلکاروں نے منظم رابطہ کاری کی۔ آرڈر پولیس نے مقامی ذیلی اداروں یا مقبوضہ علاقوں میں اپنے حلیف اداروں کی مدد سے یہودیوں کی پکڑ دھکڑ کی اور اُنہیں قتل گاہوں میں بھجوایا۔ وزارت نقل و حمل نے ایس ایس کے لیفٹننٹ کرنل ایڈولف آئخمین کی کمان میں آر ایس ایچ اے کے آئی وی بی 4 کے ساتھ اشتراک عمل میں ریل گاڑیوں کا شیڈول بنایا۔ دفتر خارجہ نے جرمنی کے محوری حلیفوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اُن کے یہودی شہریوں کو منتقل کر کے جرمن حراست میں لیا۔ جرمنوں نے اپنے ارادوں کو چھپانے کی کوشش کی۔ انہوں نے "مشرق" میں مشقت کے کیمپوں میں یہودیوں کی آبادی کی جلا وطنی کو "دوبارہ آباد کاری" کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کی۔ حقیقت میں "مشرق" میں "دوبارہ آبادکاری" مراکز قتل کی طرف لیجانے اور قتل عام کی اصطلاح بن گئی۔ ریل گاڑیوں کے اندرجرمن ریلوے حکام جلاوطنیوں کیلئے مال بردار اور مسافر دونوں گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔ جرمن حکام جلاوطن کیے جانے والوں کو عام طور پر کھانا یا پانی نہیں دیتے تھے، حتٰی کہ جب انہیں دوسری ٹرینوں کے گزر جانے کیلئے ریل روڈ کانٹے پر دنوں تک انتطار کرنا پڑتا تھا۔ سربمہر مال ڈبوں میں بند اور حد سے زیادہ بھیڑ کی وجہ سے مشکلات میں گرفتار، انہیں گرمیوں میں بے انتہاء گرمی کا سامنا کرنا پڑتا جبکہ سردیوں میں منجمد کر دینے والی سردی کا۔ ایک بالٹی کے علاوہ کوئی صحت و صفائی کی سہولت میسر نہ تھی۔ پیشاب اور پاخانہ کی بدبو جلاوطنوں کی ذلت اور مصائب میں اضافہ کرتی تھی۔ خوراک اور پانی کی کمی کی وجہ سے جلاوطن لوگوں میں سے کئی ٹرینوں کے اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی مر گئے۔ مسلح پولیس گارڈز ہمراہ جاتے تھے؛ انہیں حکم تھا کہ فرار ہونے کی کوشش کرنے والے کسی بھی فرد کو گولی مار دی جائے۔دسمبر 1941 اور جولائی 1942 کے درمیان ایس ایس اور پولیس حکام نے جرمن مقبوضہ پولینڈ میں پانچ قتل کے مراکز قائم کئے: چیلمنو، بیلزیک، سوبی بور، ٹریبلنکا 2 (ٹریبلنکا 1 یہودیوں کے لئے ایک جبری مشقت کا کیمپ تھا)، اور آشوٹز برکیناؤ: جسے آشوٹز II کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ جنرل گورنمنٹ (جرمن مقبوضہ پولینڈ کا وہ حصہ جو جرمنی سے براہ راست منسلک نہ تھا، جرمن مشرقی پروشیا کے ساتھ منسلک تھا، یا جرمن- مقبوضہ سوویت یونین میں شامل تھا) کے لوبلن ڈسٹرکٹ میں ایس ایس اور پولیس حکام نے "آپریشن رائن ہارڈ " کے نظام کے اندر بیلزیک، سوبی بور، ٹریبلنکا میں جلاوطنیوں کو منظم کیا اور اُنہیں مربوط بنایا۔ہدف بننے والے افرادبیلزیک میں ہدف بننے والے کلیدی افراد جنوبی اور جنوب مشرقی پولینڈ کے یہودی تھے، لیکن ان میں نام نہاد عظیم تر جرمن سلطنت (جرمنی، آسٹریا، سوڈیٹین لینڈ، اور بوہیمیا اور موراویا کے ماتحت علاقے) سے جلاوطن کئے جانے والے یہودی بھی شامل تھے جنہیں اکتوبر 1941 سے 1942 کے موسم گرما کے اختتام تک ڈسٹرکٹ لوبلن میں جلاوطن کیا گیا تھا۔ سوبی بور میں جلاوطن کردہ زیادہ تر یہودی لوبلن ڈسٹرکٹ سے آئے؛ لیکن 1943 کے موسم بہار اور موسم گرما میں جرمن حکام نے فرانسیسی اور ڈچ یہودیوں اور 1943 کے موسم گرما کے آخر میں بیلا روس اور لتھوانیا کی یہودی بستیوں سے بھی سوویت یہودیوں کے چھوٹے گروپوں کو سوبی بور میں منتقل کیا۔ جرمن حکام نے جنرل گورنمنٹ کے وارسا اور راڈوم ضلعوں اور بلوسٹیک انتظامی ضلع سے یہودیوں کو ٹریبلنکا منتقل کیا جہاں ایس ایس اور پولیس حکام نے ان کو قتل کر دیا۔ جرمن حکام نے جنوری 1942 سے 1943 کے موسم بہار کے دوران اور بعد میں 1944 کے موسم گرما کے آغاز میں زیادہ تر لوڈز یہودی بستی کے یہودی رہائشیوں کے ساتھ ساتھ بستی کے زندہ بچ جانیوالے روما اور سنتی (خانہ بدوش) باشندوں کو چیلمنو میں جلاوطن کیا۔ 1943 اور 1944 میں آشوٹز برکیناؤ کے مرکز قتل نے یورپی یہودیوں کو قتل کرنے کے جرمن منصوبہ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ 1943 کی سردیوں کے اختتام سے یورپ کے تقریباً ہر جرمن مقبوضہ ملک سے باقاعدگی کے ساتھ ٹرینوں کے ذریعے یہودی آشوٹز – برکیناؤ پہنچتے رہے جن میں شمال میں ناروے سے لیکر جنوب میں ترکی کے ساحل کے قریب یونانی جزیرے رھوڈز اور مغرب میں پائرینیز کی فرانسیسی ڈھلوانوں سے لیکر جرمن مقبوضہ پولینڈ کی انتہائی مشرقی سمت اور بالٹک ریاستوں سے آنے والے یہودی شامل تھے۔ ایک اور حراستی کیمپ، جو لوبلن کے قریب واقع تھا اور جسے مجدانیک کے طور پر جانا جاتا تھا، وہ گیس اور دیگر ذرائع سے یہودی اور غیر یہودی قیدیوں کے ہدف گروپوں کے قتل کے لئے ایک مقام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔پانچ مراکز قتل میں جرمنوں نے تقریباً تیس لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا۔مغربی اور شمالی یورپجرمن حکام اور مقامی اتحادیوں نے فرانس میں ڈرانسی، نیدرلینڈز میں ویسٹربورک، اور بیلجیئم میں میچیلین (میلینز) جیسے نقل و حمل کے کیمپوں کے ذریعے مغربی یورپ سے یہودیوں کو جلاوطن کیا۔ فرانس میں تقریباً 75,000 یہودیوں میں سے 65,000 سے زیادہ کو ڈرانسی سے آشوٹز برکیناؤ میں جلاوطن کر دیا گیا تھا، اور تقریباً 2,000 کو سوبی بور میں بھیجا گیا۔ جرمنوں نے نیدرلینڈ سے 100,000 سے زائد یہودیوں کو جلاوطن کیا، تقریباً تمام کو ویسٹربورک سے: تقریباً 60,000 کو آشوٹز اور 34,000 سے زیادہ کو سوبیبور بھیجا گیا۔ اگست 1942 اور جولائی 1944 کے درمیان 28 ٹرینوں نے میچیلین کے ذریعے بیلجیم سے آشوٹز برکیناؤ میں 25,000 سے زائد یہودیوں کو منتقل کیا۔ 1942 کے موسم خزاں میں جرمنوں نے ناروے کے تقریباً 770 یہودیوں کو حراست میں لیا اور انہیں کشتی اور ٹرین کی مدد سے آشوٹز میں جلاوطن کر دیا۔ ستمبر 1943 میں ڈینش یہودیوں کو جلاوطن کرنے کی ایک کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی جب ڈنمارک میں مزاحمت نے متوقع پکڑدھکڑ سے ہوشیار ہوتے ہوئے ڈینش یہودیوں کو سویڈن فرار ہونے مں مدد دی جو غیر جانبدار تھا۔ جنوبی یورپجرمنوں نے یونان، اٹلی اور کرشیا سے یہودیوں کو جلاوطن کیا۔ مارچ اور اگست 1943 کے درمیان ایس ایس اور پولیس حکام نے شمالی یونان میں سلونیکا سے 40,000 سے زائد یہودیوں کو جلا وطن کر کے آشوٹز برکیناؤ پہنچا دیا جہاں پہنچنے پر کیمپ کے عملے نے ان میں سے زیادہ تر کو گیس چیمبروں میں ہلاک کر دیا۔ جرمنوں نے ستمبر 1943 میں شمالی اٹلی پر قبضہ کر لینے کے بعد 8,000 یہودیوں کو جلاوطن کیا جن میں سے زیادہ تر کو آشوٹز برکیناؤ بھیجا۔ کروشیائی محوری شراکت داروں کے ساتھ ایک معاہدے کی بنیاد پر جرمن حکام نے تقریباً 7,000 کروشیائی یہودیوں کو حراست میں لے لیا اور انہیں جلاوطن کر کے آشوٹز بھجوا دیا۔بلغاروی گینڈرماس اور فوجی یونٹوں نے بلغاریہ کے مقبوضہ علاقے مقدونیہ سے 7,000 یہودی شہریوں کو حراست میں لیکر ٹرانزٹ کیمپ کے ذریعے سکوپجے جلاوطن کر دیا۔ بلغاریہ کا مقبوضہ علاقہ مقدونیہ قبل اذیں یوگوسلاویہ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ بلغاریہ کے حکام نے بلغارویہ کے مقبوضہ علاقے تھریس میں رہائش پزیر تقریباً 4,000 یہودیوں کو بلغاریہ کے دو مراکز میں منتقل کیا اور پھر اُنہیں جرمن حراست میں دے دیا۔ مجموعی طور پر بلغاریہ نے 11,000 سے زائد یہودیوں کو جرمنی کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھجوا دیا۔ جرمن حکام نے ان یہودیوں کو ٹریبلنکا 2 میں منتقل کیا جہاں انہیں گیس چیمبروں میں ہلاک کر دیا گیا۔وسطی یورپجرمن حکام نے اکتوبر 1941 میں عظیم تر جرمن سلطنت سے یہودیوں کو جلاوطن کرنا شروع کر دیا تھا جب قتل کے مراکز کی تعمیر ابھی محض منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہی تھی۔ 15 اکتوبر 1941 اور 4 نومبر 1941 کے دوران جرمن حکام نے20,000 یہودیوں کو جلاوطن کر کے لوڈز یہودی بستی میں پہنچا دیا۔ 8 نومبر 1941 اور اکتوبر 1942 کے دوران جرمن حکام نے عظیم تر جرمن سلطنت سے لگ بھگ 49,000 یہودیوں کو ریگا، منسک، کوونو، اور راسیکو پہنچایا ۔ یہ تمام علاقے رائخ کمشریئت اوسلینڈ (جرمن مقبوضہ بیلا روس، لتھوانیہ، لیٹویہ اور ایسٹونیہ) میں تھے۔ ایس ایس اور پولیس حکام نے رائخ کمشریئت اوسلینڈ پہنچنے پر جلا وطن ہونے والے یہودیوں کی اکثریت کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مارچ اور اکتوبر 1942 کے دوران جرمن حکام نے جرمنی، آسٹریہ اور چیک کے مزید 63,000 کے لگ بھگ یہودیوں کو وارسا کی یہودی بستی اور ضلع لوبلن میں مختلف مقامات میں پہنچا دیا جن میں کراس نسٹاؤ اور ازبیکا کے ٹرانزٹ کیمپ ۔ یہودی بستیاں شامل تھے۔ کچھ یہودیوں کو سوبی بور میں قتل کےمرکز میں منتقل کیا گیا۔ لوڈز اور وارسا کی یہودی بستیوں میں رہائش پزیر جرمن یہودیوں کو بعد میں پولش یہدیوں کے ساتھ جلاوطن کر کے چیلمنو، ٹریبلنکا 2 اور پھر 1944 میں آشوٹز برکیناؤ بھجوا دیا گیا۔ عظیم تر جرمن سلطنت سے براہ راست آشوٹز کیلئے یہودیوں کی پہلی نقل مکانی 18 جولائی، 1942 کو ویانا سے ہوئی۔ اکتوبر 1942 کے آخر سے جنوری 1945 تک جرمن حکام نے عظیم تر جرمن سلطنت میں باقی رہ جانیولے 71,000 سے زیادہ یہودیوں کو آشوٹز برکیناؤ میں جلا وطن کر دیا۔ جرمنوں نے جرمنی، آسٹریا، بوہیمیا اور موراویا کے ماتحت علاقوں اور مغربی یورپ سے بزرگ یا ممتاز یہودیوں کو تھیریسئن شٹٹ یہودی بستی میں جلاوطن کر دیا۔ یہ یہودی بستی مزید مشرق کی جانب جلا وطنی کیلئے ایک ٹرانزٹ کیمپ کے طور پر استعمال کی گٰی۔ یہ جلاوطنیاں زیادہ تر آشوٹز برکیناؤ کی جانب کی گئیں۔ مئی اور جولائی 1944 کے دوران ہنگیرین گینڈرمیس نے جرمن سیکورٹی پولیس افسران کے تعاون سے ہنگری سے تقریباً 440,000 یہودیوں کو جلا وطن کیا۔ ان میں سے بیشتر کو آشوٹز برکیناؤ میں بھیج دیا گیا تھا۔ سلاواکیہ کے حکام کے تعاون سے جرمنوں نے 50,000 سے زائد سلاواکیہ کے یہودیوں کو آشوٹز برکیناؤ اور مجدانیک کے حراستی کیمپوں میں منتقل کیا۔ برکیناؤ میں گیس چیمبرز کے لئے منتخب کیے جانیوالے سلاواکی یہودی سب سے پہلے افراد تھے۔ 1944 کے موسم خزاں میں جرمن ایس ایس اور پولیس حکام نے سلاواکی بغاوت کے دوران 10,000 سلاواکی یہودیوں کو آشوٹز برکیناؤ منتقل کیا۔ یہ قتل کے مراکز کی جانب کی جانے والی سب سے بڑی جلاوطنیاں تھیں۔مارچ 1942 اور نومبر 1943 کے دوران ایس ایس اور پولیس نے تقریباً 1,526,000 یہودیوں کو جلاوطن کیا۔ ان میں سے زیادہ تر کو ٹرین کے ذریعے آپریشن رائن ہارڈ، بالزیک، سوبیبور اور ٹریبلنکا کی قتل گاہوں میں منتقل کیا گیا۔ 08 دسمبر 1941 اور مارچ 1943 کے دوران اور پھر جون-جولائی 1944 میں ایس ایس اور پولیس حکام نے تقریباً 156,000 یہودیوں اور چند ہزار روما اور سینٹی افراد کو ٹرین اور ٹرک کے ذریعے یا پھر پیدل چیلمنو میں واقع قتل گاہوں میں منتقل کیا۔ مارچ 1942 اور دسمبر 1944 کے دوران جرمن حکام نے 11 لاکھ یہودیوں اور 23,000 روما اور سینٹی افراد کو آشوٹز برکیناؤ جلاوطن کیا۔ ان میں سے اکثریت کو ریل کے ذریعے وہاں پہنچایا گیا۔ آپریشن رائن ہارڈ قتل گاہوں سے 500 سے بھی کم افراد بچ سکے۔ چیلمنو کی جانب منتقلی کے سفر کے دوران بہت کم افراد جان بچا پائے۔ غالباً ایک لاکھ یہودی آشوٹز برکیناؤ کی جانب جلاوطنی سے محض اسلئے بچ نکلے کہ انہیں وہاں پہنچنے پر جسمانی مشسقت کیلئے منتخب کر لیا گیا۔