نازی پالیسی کے باعث قتل ہونے والے افراد کی اصل تعداد کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ جنگ کے زمانے کی کوئی ایسی دستاویز موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ ہولوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران  کل کتنے افراد قتل ہوئے تھے۔

انسانی اموات کا صحیح اندازہ لگانے کیلئے دانشوروں، یہودی تنظیموں اور سرکاری ایجنسیوں نے 1940 کی دہائی سے بہت سے مختلف ریکارڈز پر انحصار کیا جن میں مردم شماری کی رپورٹیں پکڑے جانے والے جرمنوں، محوری طاقتوں کی آرکائیوز اور جنگ کے بعد کی تحقیقات شامل ہیں۔ یوں اُنہوں نے اپنے اعداد و شمار مرتب کئے۔  جیسے جیسے مزید دستاویزات سامنے آتی ہیں اور دانشور ہولوکاسٹ میں ہونے والے واقعات کا صحیح اندازہ لگاتے ہیں، اموات کی تعداد تبدیل ہوتی جائے گی۔

ہولوکاسٹ کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد کا اندراج کرتے وقت سب سے اہم بات جو ذہن نشین کر لینی چاہئیے وہ یہ ہے کہ کوئی ایسی واحد بنیادی فہرست دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے جس میں ہولوکاسٹ سے ہونے والی تمام اموات کا ذکر موجود ہو۔

نیچے دئے گئے اعدادوشمار نازیوں اور اُن کے حلیفوں کی طرف سے قتل کئے گئے شہریوں اور نہتے فوجیوں کے بہترین اندازے ہیں۔

یہ اعدادوشمار جنگ کے زمانے کی اُن رپورٹوں سے حاصل کئے گئے ہیں جو نازیوں کی مردم شماری  کی پالیسی کو نافذ کرنے اور دوسری عالمی جنگ کے دوران آبادیوں میں کمی سے متعلق بعد از جنگ کے آبادیاتی جائزے تیار کرنے کے عکاس تھے۔

اموات کی تعداد

اموات کی تعداد گروپ
60 لاکھ  یہودی
تقریباً 70 لاکھ (ان میں 13 لاکھ سوویت یہودی شہری بھی شامل تھے جو 60 لاکھ یہودیوں کی تعداد کا حصہ تھے) سوویت شہری
30 لاکھ  کے لگ بھگ (ان میں تقریباً 50,000 یہودی فوجی شامل تھے) سوویت جنگی قیدی
تقریباً 18 لاکھ (بشمول 50,000 سے 100,000 پولش اشرافیہ کے ارکان) غیر یہودی پولش شہری
312,000 سربیا کے شہری (جو کروشیا، بوسنیا اور ہرزیگووینا کے علاقے میں موجود تھے)
250,000 تک اداروں میں رہنے والے معذور افراد
250,000 تک روما (خانہ بدوش)
تقریباً 1,900 یہووا کے گواہان
کم سے کم 70,000 بار بار جرم کرنے والے اور نام نہاد غیر سماجی افراد
تعداد نا معلوم جرمنی کے سیاسی مخالفین اور محوری طاقتوں کے مقبوضہ علاقوں میں مزاحمتی کارکن
سیکڑوں یا شاید ہزاروں (ان کا کچھ حصہ ممکنہ طور پر اوپر دئے گئے بار بار جرم کرنے والے اور نام نہاد غیر سماجی افراد کی 70,000 کی تعداد میں شامل تھے) ہم جنس پرست

موت کے مقام کے مطابق یہودی جانوں کا ضیاں

ہولوکاسٹ میں موت کا شکار ہونے والے یہودیوں کی تعداد کے حوالے سے موت کے مقام پر مبنی یہودی جانوں کے ضیاں کا بہترین اندازہ کچھ یوں ہے۔

یہودی جانوں کا ضیاں موت کا مقام
تقریباً دس لاکھ آشوٹز کمپلیکس (بشمول برکیناؤ، مونو وٹز اور ذیلی کیمپ)
تقریباً 925,000 ٹریبلنکا ۔ 2 
434,508 بیلزیک
کم سے کم 167,000 سوبیبور
156,000 - 172,000 چیلمینو
کم سے کم 200,000 مرکزی اور جنوبی جرمن مقبوضہ پولینڈ (گورنمنٹ جنرل) کے مختلف مقامات پر شوٹنگ آپریشنز
کم سے کم 20,000 جرمنی کے زیر قبضہ مغربی پولینڈ (ڈسٹرکٹ واردی لینڈ) میں شوٹنگ آپریشنز
کم سے کم 150,000 دیگر تنصیبات میں اموات جنہیں جرمنی نے حراستی کیمپ  مقرر کیا
کم سے کم 13 لاکھ جرمن مقبوضہ سوویت یونین کے سیکڑوں مقامات پر شوٹنگ آپریشنز اور گیس کی ویگنوں میں ہونے والی اموات
تقریباً 55,000 سوویت یونین میں شوٹنگ آپریشنز (جرمنی، آسٹریہ اور چیک کے یہودیوں کو جلاوطن کر کے سوویت یونین لایا گیا)
کم سے کم 15,088 سربیا میں شوٹنگ آپریشنز اور گیس ویگنوں میں ہونے والی اموات
23,000 سے 25,000 کروشیا میں اُستازا حکومت کے تحت گولی مار کر یا تشدد سے کی جانے والی اموات
کم سے کم 800,000 یہودی بستیوں میں ہونے والی اموات
کم سے کم 500,000 1دیگر

دستاویزات کے بارے میں نوٹس

جنگ کے زمانے کی ایک بھی دستاویز موجود نہیں ہے

جنگ کے زمانے کی ایک بھی دستاویز موجود نہیں ہے جس میں یہودی اموات سے متعلق اوپر دئے گئے تخمینے موجود ہوں۔

کوئی ایک بھی دستاویز نہ ہونے کی تین ظاہری اور باہم مربوط  وجوہات ہیں:

1 ۔ جرمنوں اور دیگر محوری قوتوں کی طرف سے یہودیوں کے قتل عام کے جامع اعداد و شمار جمع کرنے کا کام 1942 اور 1943 میں شروع ہوا۔ یہ کام جنگ کے آخری ڈیڑھ برس کے دوران روک دیا گیا۔

2 ۔ 1943 کے آغاز سے جونہی جرمنوں اور اُن کی محوری قوتوں نے یہ جانا کہ وہ جنگ ہار رہی ہیں، اُنہوں نے پہلے سے موجود زیادہ تر دستاویزات تلف کر دیں۔ اُنہوں نے قتل عام کے ظاہری ثبوت بھی مٹا دئے۔

3 ۔ دوسری عالی جنگ اور نازی سلطنت کے خاتمے سے پہلے یہودی اموات کی گنتی کرنے کیلئے کوئی اہلکار موجود نہیں تھے یا وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے۔  لیذا مجموعی تخمینے جنگ کے بعد ہی لگائے گئے اور یہ آبادیوں میں کمی سے متعلق ڈیٹا اور قتل عام کرنے والوں کی دستاویزات پر مبنی تھا۔ اگرچہ یہ معلومات جزوی تھیں، ان ذرائع سے اصل تعداد کا اندازہ لگانے کیلئے اہم اعدادوشمار حاصل ہوئے۔

مرکز کی ہدایت پر کئے گئے ایک سروے میں جرمن حکام کی طرف سے قتل کئے گئے ایسے یہودیوں کا جائزہ لیا گیا جو جنگ کے بعد زندہ رہے۔ امریکی فوج کی طرف سے 1945 میں قبضے میں لئے گئے ریکارڈ میں اس کی ایک کاپی موجود ہے۔  اسی طرح امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کی طرف سے دوسری عالمی جنگ کے بعد حاصل کئے گئے ریکارڈ میں بھی ایسے گھناؤنے اقدامات کے اعدادوشمار موجود تھے جو علاقائی سطح پر مرتب کئے گئے تھے۔ امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین نے ان میں سے بیشتر دستاویزات کو ایک یا زائد موقعوں پر نازی مجرموں کے خلاف دیوانی مقدمات میں جرائم کی شہادت کے طور پر پیش کیا۔

پولش اور سوویت شہریوں کے اعدادوشمار

پولش اور سوویت شہریوں کے اعدادوشمار کے حوالے سے تاریخ دانوں کو آبادیوں سے متعلق ایسے ٹولز میسر نہیں تھے جن کی مدد سے مندرجہ ذیل میں تفریق کی جا سکے:

1 ۔ ایسے افراد جن کو نسلی اعتبار ہدف بنایا گیا

2 ۔ ایسے افراد جو پوشیدہ مزاحمتی تحریک میں یا تو حقیقی طور پر متحرک تھے یا اُن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ اُن سے وابستہ تھے

3 ۔  کسی کارروائی کے جواب میں یا کسی اور شخص کی طرف سے کی جانے والی  مزاحمتی کارروائی کے نتیجے میں قتل ہونے والے افراد

4 ۔ حقیقی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ہونے والے اضافی نقصان میں مارے گئے افراد

فوجی اور مزاحمتی تحریکوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران سوویت، پولیش اور سربین شہریوں کی تقریباً تمام ہی اموات میں نسلی پہلو نمایاں تھا۔ جرمن دستوں نے  نظریاتی  وجوہات کی بنا پر اور جان بوجھ کر شہریوں کی زندگیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ کارروائیاں کیں۔ 

[1] ’’دیگر‘‘ میں مثال کے طور پر پولینڈ میں 1939 سے 1940 کے دوران شوٹنگ آپریشنز میں قتل ہونے والے افراد شامل ہیں؛ جیسے کہ یوگوسلاویا، یونان، اٹلی، فرانس اور بیلجیم میں حمایت کرنے والے؛ ہنگری میں لیبر بٹالینز؛ جنگ سے قبل جرمنی اور آسٹریا میں یہود مخالف کارروائیوں کے دوران؛ 1940-1941 میں رومانیا کے آئرن گارڈ کی طرف سے؛ اور دوسری عالمی جنگ کے آخری چھ ماہ کے دوران حراستی کیمپوں اور لیبر کیمپوں سے ہونے والے جلاوطنی کے مارچ کے دوران ہونے والی اموات۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں چھپنے کے دوران پکڑ لیا گیا اور پولینڈ، سربیا اور جرمن مقبوضہ دیگر یورپی علاقوں میں قتل کر دئے گئے۔