1939 میں فرینچ شمالی افریقہ تین نوآبادیوں پر مشتمل تھا جن میں الجزائر، مراکش اور تیونس شامل تھے۔

اِن تینوں نو آبادیوں میں سب سے بڑی آبادی عرب اور بربر مسلمانوں کی تھی جن میں فرانس اور دیگر جنوبی یورپ کے ملکوں سے آ کر آباد ہونے والے بھی شامل ہو گئے۔ وہ خاص طور پر الجزائر میں آباد ہوئے۔ اِن تینوں نو آبادیوں میں یہودیوں کی آبادی کا تناسب سب سے کم تھا۔

الجزائر تکنکی اعتبار سے فرانسیسی ریاست کا حصہ تھا جبکہ تیونس اور مراکش فرانس کے ماتحت علاقے تھے۔ الجزائر اور تیونس سولہویں صدی سے لیکر 19 ویں صدی میں فرانسیسی نو آبادیاں بننے تک سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں رہے ہیں۔ فرانسیسی فوجوں نے 1830 میں الجزائر پر حملہ کر دیا اور پھر اگلے 30 برس تک اُس نے اِس علاقے پر اپنا اقتدار قائم رکھا اور یوں اسے اپنی نوآبادی بنا لیا۔ دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر الجزائر کی آبادی 72 لاکھ 35 ھزار کے لگ بھگ تھی جس میں زیادہ تر یعنی 60 لاکھ سے زائد عرب اور بربر تھے۔

تیونس 1881 میں فرانس کا ذیلی علاقہ بن گیا۔ الجزائر کے بر خلاف جس پر فرانس کی براہ راست حکمرانی تھی، تیونس نے اپنی برائے نام خود مختاری برقرر رکھی لیکن اُسے فرانسیسی ریزیڈنٹ جنرل اور فرانس کی فوجی موجودگی کو برداشت کرنا پڑا۔ حکمران جماعت کا اقتدار داخلی معاملات تک محدود ہو گیا۔ 1936 میں تیونس کی آبادی 26 لاکھ تھی جس میں سے 23 لاکھ 36 ھزار تیونس کے بربر اور عرب مسلمان تھے جبکہ باقی یہودی یا یورپ سے آنے والے آبادکار تھے۔

مراکش کبھی بھی سلطنت عثمانیہ کی حکمرانی میں نہیں آیا۔ تاہم تیونس پر شریف بادشاہوں کی حکمرانی رہی ماسوائے کچھ شمالی علاقے کے جو ہسپانیہ کے زیر تسلط رہے۔ 1912 میں فیز کے معاہدے کے نتیجے میں فرانس کا بیشتر علاقہ فرانس کے زیر نگین آ گیا۔ شریف بادشاہت اپنی جگہ قائم رہی تاہم فرانسیسی فوج وہاں موجود رہی اور ایک فرانسیسی کمشنر جنرل نے داخلی سلامتی اور تمام غیر مراکش شہریوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اِس مدت کے دوران مراکش کی آبادی 70 لاکھ تک پہنچ گئی۔ اِس میں سے تقریباً 60 لاکھ بربر اور عرب مسلمان تھے جبکہ باقی لوگ یا تو یہودی تھے یا پھر یورپی آبادکار۔

دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر فرینچ شمالی افریقہ میں تقریباً 4 لاکھ یہودی آباد تھے جو کل مقامی آبادی کا محض 3 فیصد تھا۔ شمالی افریقہ کے زیادہ تر یہودیوں نے چھوٹے قصبوں سے نوآبادیاتی شہروں کا رخ اختیار کر لیا تھا جہاں وہ غیر مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ تھے۔ اِن شہروں میں مراکش کے کیسابلانکا، رباط اور فیز، الجزائر کے الجیریہ، اورن، تلم سین، سڈی بیل عباس اور کانسٹن ٹائین اور تیونس میں سفیکس اور سوسے شامل تھے۔

یہودیوں کی بڑی اکثریت اِس خطے میں مقامی حیثیت رکھتی تھی کیونکہ وہ قدیمی زمانوں سے بحیرہ روم کے نواحی علاقوں سے مسلسل یہاں آکر آباد ہونے والوں کی اولاد تھے۔ اِن میں وہ یہودی تاجر شامل تھے جو نویں صدی قبل مسیح میں فینیشین لوگوں کے ہمراہ یہاں پہنچے تھے۔ اِن میں بربر قبیلوں کے مذہب تبدیل کر کے یہودی بننے والے، جزیرہ نما لبیریا کے رومی کلیساؤں اور بحیرہ روم کے ارد گرد علاقوں سے ہجرت کرنے والے بھی شامل تھے۔ خاص طور پر شمالی مراکش اور اورین کے مغربی الجیرین ڈپارٹمنٹ میں ہسپانوی اور لاطینو بولنے والے سفارڈک یہودیوں کی خاصی تعداد موجود تھی جبکہ تیونس اور الجزائر میں آباد ہونے والے یہودیوں کی جڑیں لیوورنو کے اطالوی تجارتی مرکز سے تھیں۔ اِن تینوں ملکوں کے مقامی یہودی یہودی عربی اور یہودی بربر زبانیں بھی بولتے تھے ہر چند کہ اُس زمانے میں اِن زبانوں پر بڑی حد تک فرانسیسی زبان غالب آ چکی تھی۔ علاوہ اذیں اِن میں یورپ سے حالیہ برسوں میں آنے والے یہودیوں کی ایک مختصر تعداد بھی شامل تھی۔

وکی حکومت کی طرف سے 1941 میں کی جانی والی مردم شماری کے مطابق الجزائر کے یہودیوں کی تعداد ایک لاکھ 11 ھزار کے لگ بھگ تھی۔ اِس کے علاوہ 6,625 غیر ملکی یہودی بھی تھے۔ الجزائر کے یہودی فرانسیسی شہری تھے۔ 1870 میں کریمئکس حکمنامے کے ذریعے اُنہیں بحیثیت مجموعی فرانسیسی شہریت دے دی گئی تھی۔ اُنہوں نے نوآبادی کے فرانسیسی تعلیمی، سیاسی اور سماجی اداروں میں بھرپور حصہ لیا۔ یہودی مراکش اور تیونس میں اپنے مسلمان ہمسائیوں کی مانند نوآبادیاتی حکمرانوں کے زیر تسلط تھے۔ تیونس میں 68,000 مقامی یہودی، 3,200 اطالوی یہودی اور 16,500 فرانسیسی یہودی تھے۔ اِن کے علاوہ 1,660 دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والے یہودی بھی تھے جن میں خاص طور پر برطانوی یہودی شامل تھے۔ یہودیوں کی سب سے زیادہ آبادی مراکش میں موجود تھی جہاں اُن کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ تھی جن میں ایک لاکھ 80 ھزار کے قریب مراکش کے باشندے، 12,000 فرانسیسی شہری اور باقی غیر ملکی شامل تھے۔

شمالی افریقہ کی یہودی برادری سماجی اور اقتصادی اعتبار سے منقسم تھی۔ اگرچہ ان میں ایک امیر پیشہ ور طبقہ موجود تھا تاہم یہ اس خطے کی کل یہودی آبادی کا محض 6 فیصد تھا۔ تینوں نوآبادیوں میں زیادہ تر یہودی خاندان غریب تھے۔ ملازمت پیشہ یہودیوں کی آدھی سے زائد تعداد فنکار، نچلے طبقے کے ملازمین یا تنخواہ دار کارکنوں کی حیثیت رکھتی تھی۔ مازمت پیشہ یہودیوں کی سب سے بڑی تعداد کامرس، زراعت اور پارچہ بافی کے مختلف شعبوں میں کام کرتی تھی۔ بحر حال بیسویں صدی تک خاص طور پر الجزائر اور تیونس سمیت شمالی افریقی یہودی بڑی حد تک فرانسیی معاشرے اور ثقافت کا حصہ بن چکے تھے۔

الجزائر کی آبادکار سوسائیٹی کی ایک بڑی خصوصیت سام دشمنی تھی۔ یہودیوں کی فرانسیسی شہریت اور اِس کے ذریعے حاصل ہونے والے سیاسی حقوق آبادکار سوسائیٹی کے الجزائر کے معاشرے کیلئے خطرناک تصور کئے جاتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں الجزائر میں سام دشمنی کی پالیسی کے حامل اخبار فروغ پا رہے تھے اور بڑے شہروں میں سیاستدان یہود دشمنی کے پلیٹ فارم پر ہی کامیاب ہو رہے تھے۔

یورپ سے تعلق رکھنے والے یہود دشمنوں نے مسلمانوں کو بھی یہودیوں کے خلاف کارروائیاں کرنے کیلئے اُبھارنے کی کوشش کی۔ لیکن اُنہیں اِس میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ یہ ماحول دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے زیر اثر یہود مخالف اقدامات اختیار کرنے کیلئے سودمند ثابت ہوا۔ یورپی نژاد یہود دشمنوں نے فرانس کی شکست کے حوالے سے یہودیوں کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے افواہیں پھیلانا شروع کر دیں اور مطالبہ کیا کہ اُن کے منظم قتل عام یعنی پوگرام پر عملدرآمد شروع کیا جائے۔ ستمبر 1940 میں الجزائر میں یہودی دوکانوں پر حملے کر کے اُن کو تباہ کیا گیا اور حکام نے اسے روکنے کیلئے کوئی کارروائی نہ کی۔ مراکش اور تیونس میں چونکہ یورپی آبادکاروں کی تعداد کم تھی اِس لئے فرانس کی دائیں بازو کی تنظیمیں اِن ملکوں پر کوئی خاص اثرانداز نہ ہو سکیں۔

تاہم 1930 کی دہائی کے آخر میں نازی جرمنی اور فاشسٹ اٹلی نے سام دشمنی کو اپنی ماتحت ریاستوں اور الجزائر تک پھلانا شروع کر دیا جس کا مقصد فرینچ شمالی افریقہ کے مسلمانوں کو سام دشمنی کی زد میں لانا تھا تاکہ یہود دشمن فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ عربی اور بربر زبانوں کے اخبارات، اشتہارات اور ریڈیو نشریات کے ذریعے یہودیوں کے منظم قتل عام یعنی پوگرام شروع کرنے اور یہودیوں کے کاروباروں کے اقتصادی بائیکاٹ کے مطالبات شروع کر دئے گئے۔ اُنہوں نے عربوں اور بربروں میں عالمی مسلمانوں پر مشتمل واحد مسلم ریاست کے تصور یعنی پین اسلام ازم اور قوم پرستی کے رجحانات کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش کی۔ فرانسیسی نو آبادیوں میں اطالوی کونسلر سروسز نے ایسی افراہیں پھیلا دیں جن میں مراکش اور تیونس کے یہودیوں کو فرانسیسی نوآبادیاتی حکمرانوں کے ایجنٹ اور فلسطین کے یہودیوں کو برظانوی سلطنت کے ایجنٹ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اطالوی کاروباری کمپنیوں کو کہا گیا کہ وہ مراکش اور تیونس میں اپنے یہودی ملازمین کو برطرف کر دیں۔

اِن تمام اقدامات کے نتیجے میں مسلمانوں کے یہود مخالف جذبات اور یہودیوں اور اُن کی املاک کے خلاف تششد کی خبریں سامنے آنے لگیں۔

سارہ سسمان

اسٹین فورڈ یونیورسٹی