نازی جرمنی اور اس کے اتحادیوں اور حلیفوں نے سوویت فوجوں سے ہتھیائے گئے علاقے میں گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب کیا۔ اسے بعض اوقات گولیوں کے ذریعے ہولوکاسٹ کہا جاتا ہے۔ گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام اور اس سے وابستہ خونریزی میں کم و بیش 2 ملین یہودیوں کو ہلاک کیا گیا۔ 

1939-1940 میں، جرمنی اور سوویت یونین کی جانب سے پولینڈ کے تقسیم کیے جانے کے بعد سوویت یونین  نے بالٹک ریاستوں اور جنگ سے قبل کے پولینڈ اور رومانیہ کے علاقوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا جہاں یہودیوں کی بڑی آبادیاں تھی۔ جون 1941 میں سوویت یونین پر جرمن حملے کے بعد (جسے آپریشن باربروسا کہا جاتا ہے)، جرمنوں اور ان کے اتحادیوں اور حلیفوں نے سوویت فوجوں سے ہتھیائے گئے علاقوں میں گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کی ہزاروں سرگرمیوں کا ارتکاب کیا۔ جرمن فوجیں جوں جوں تیزی کے ساتھ مشرقی یورپ میں بڑھتی گئیں، ویسے ویسے انہوں نے چھوٹے قصبوں جیسے کہ ایجزیسکی (آئشی شوک)، درمیانے رقبے کے شہروں جیسے کہ کامینیٹس، پوڈولسک   اور بڑے شہروں جیسے کہ کیئیو میں گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کیا۔ سویلین ایڈمنسٹریشنز جنہیں جرمنی اور اس کے اتحادیوں نے مقبوضہ علاقوں میں قائم کیا تھا، انہوں نے باقی ماندہ یہودیوں کو اقلیتی یہودی بستیوں میں محصور کیا اور وقتاً فوقتاً گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام میں انہیں ہلاک کرنا جاری رکھا۔ 

ہولوکاسٹ کا زیادہ تر تذکرہ اور تحقیق اقلیتی یہودی بستیوں، حراستی کیمپوں، اور قتل گاہوں کے اس کردار پر مبنی ہے جو انہوں نے ہولوکاسٹ میں ادا کیا تھا۔ اُس بنیادی کردار پر کم توجہ دی جاتی ہے جو ہولوکاسٹ کے چھ ملین متاثرین کی ہلاکت میں گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام  نے ادا کیا تھا۔

گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کا آغاز اور شدت، موسمِ گرما 1941

آئسسکیز قصبے کے ایک یارڈ میں نوجوان لڑکیوں کا ایک پوز

جون 1941 میں نازی جرمنی نے سوویت یونین پر چڑھائی کر دی۔ جرمن فوج اور پولیس حکام کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ نازی جرمنی کے مبینہ نسلی اور نظریاتی دشمنوں کے خلاف "ورنیکٹنگس کریگ یعنی صفحۂ ہستی سے مٹانے کی جنگ" کا آغاز کریں۔ ان مفروضہ دشمنوں میں کمیونسٹس، یہودی، روما، اور سوویت کے دیگر شہری شامل تھے۔

اس چڑھائی کے تقریباً فوراً بعد ہی، جرمن ایس ایس اور پولیس یونٹس نے گولیوں کے ذریعے مقامی یہودیوں کے اجتماعی قتلِ عام کا آغاز کر دیا۔ سب سے پہلے، ان یونٹس نے فوج میں بھرتی کی عمر کے حامل یہودی مردوں کو ہدف بنایا۔ لیکن اگست 1941 تک، انہوں نے عمر یا جنس سے قطعِ نظر، تمام یہودی کمیونٹیز کا وحشیانہ قتلِ عام شروع کر دیا۔ اس چیز نے نازیوں کی یہود مخالف پالیسی میں انتہا پسندانہ شدت پیدا کر دی جس کا نتیجہ بالآخر "یہودیوں کا آخری حل" — پورے یورپ کے یہودیوں کو ہلاک کرنے کے نازی منصوبے کی صورت میں سامنے آیا۔ 

بہت سے مختلف اقسام کے جرمن یونٹس نے سوویت فوجوں سے ہتھیائے گئے علاقوں میں اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب کیا۔ سب سے زیادہ بدنامِ زمانہ آئن سیٹس گروپن (سیکیورٹی پولیس اور ایس ڈی کی خصوصی ٹاسک فورسز) ہیں۔ تاہم، آئن سیٹس گروپن کے پاس صرف 3,000 کا عملہ تھا جن کے ذمے مختلف نوعیت کے بہت سے کام تھے اور انہیں براہِ راست پوری مشرقی سرحد کے پیچھے صف آراء کیا گیا تھا۔ دیگر جرمن یونٹس بشمول آرڈر پولیس بٹالینز، وافن-ایس ایس یونٹس، اور جرمن فوجی واہرماخٹ یونٹس نے بھی بڑے پیمانے پر خونریزی کی۔ گولیوں کے ذریعے ہولوکاسٹ انجام دینے کے لیے ان کی افرادی قوت انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ 

مزید برآں، صرف جرمن یونٹس ہی نہیں بلکہ دیگر  نے بھی گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کیا تھا۔ بہت سی جگہوں پر، انہوں نے ایس ایس اور پولیس کے ساتھ کام کرنے والے مقامی امدادی یونٹس کی افرادی قوت پر بھروسہ کیا۔ یہ امدادی یونٹس مقامی شہریوں، فوج، اور پولیس کے عہدیداروں پر مشتمل تھے۔علاوہ ازیں، جرمنی کے اتحادی، رومانیہ کی فوجوں نے اپنے مقبوضہ اور زیرِ تسلط علاقے میں گولیوں کے ذریعے یہودیوں کا اجتماعی قتلِ عام کیا۔

قتل کا عمل

ایس ایس فوجی پولش لوگوں کے ایک گروپ کو مار ڈالنے کی غرض سے  جنگل کی طرف لے جا رہے ہیں۔

اگرچہ گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام ہمیشہ ایک ہی جیسے عمل سے نہیں گزرتا تھا، لیکن انہیں مارا تقریباً ایک ہی طریقے سے جاتا تھا۔ گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کے پہلے عمومی مرحلے میں (جسے جرمنی میں ایکٹیئون کہا جاتا تھا) جرمن یونٹس اور مقامی حلیف دیہاتوں، قصبوں یا شہروں میں یہودی رہائشیوں کو حراست میں لیتے تھے۔ اس کے بعد وہ یہودی رہائشیوں کو دور دراز علاقوں میں پہلے سے طے شدہ مقام پر منتقل کر دیتے تھے۔ پھر، وہ جبری طور پر ان سے ایک اجتماعی قبر کھدوانے کا کام لیتے تھے یا پہلے سے تیار شدہ اجتماعی قبر کے پاس لے جاتے تھے۔ آخر میں، جرمن اور/ یا مقامی حلیف تمام مردوں، عورتوں، اور بچوں کو گولیاں مار کر ان گڑھوں میں گرا دیتے تھے۔

بعض جگہوں پر، گولیاں چلانے والے ایک حکمتِ عملی اپناتے تھے جسے غیر متعلقہ طور پر سارڈینن پیکنگ کہا جاتا تھا، جس میں انہیں زمین پر جبراً لٹا دیا جاتا تھا اور پھر گردن اور کھوپڑی کے پیچھے گولی مار دی جاتی تھی۔ اس مرے ہوئے شخص پر فوراً ہلکی سی مٹی ڈال دی جاتی تھی اور پھر اگلے شخص کو اس کے اوپر لیٹنے کا کہا جاتا تھا، جہاں اُسے بھی گولی مار دی جاتی تھی۔ ان لوگوں کو عموماً اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو مرتے دیکھنا پڑتا تھا۔

گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کا عمل دن دیہاڑے اور مقامی رہائشیوں کے دیکھتے اور سنتے انجام دیا جاتا تھا۔

قتل عام کے بعد، جرمن دانستہ طور پر ان اجتماعی قبروں کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان میں سے بے شمار قبریں کئی دہائیوں تک بے نام و نشان رہیں اور بہت سی آج بھی گمنام ہیں۔ پورے مشرقی یورپ میں ایک نامعلوم تعداد میں اجتماعی قبریں لاپتہ اور گمنام ہیں۔ 

اجتماعی قتلِ عام کی متبادل شکل کے طور پر گیس وینیں 

اجتماعی قتلِ عام کا عمل وسائل کا شدید متقاضی تھا، جس کے لیے بہت سے گولی چلانے والے اور حفاظتی دستہ والے گارڈز، اس کے علاوہ بندوقیں، اسلحہ، اور نقل و حمل کے وسائل کی ضرورت تھی۔ گولیوں کے ذریعے ہلاک کرنے کے عمل کی عدم اثر پذیری کے حوالے سے خدشات اور گولی چلانے والوں پر اس کے پڑنے والے نفسیاتی اثرات کے پیشِ نظر خصوصی ویگنیں تیار کی گئیں جو ایسے ہوزوں سے لیس تھیں جن کے ذریعے ویگن کے انجن کے ایگزاسٹ سے کاربن مونو آکسائیڈ پوری طرح سے بند مسافر کمپارٹمنٹس میں بھر دی جاتی تھی۔ یہودیوں کو ان کمپارٹمنٹس میں بھر دیا جاتا تھا اور پھر اجتماعی قبر کی طرف لے جایا جاتا تھا، جہاں وہ سفر کے دوران ہی دم گھٹ کر مر جاتے تھے۔ 

تاہم، ویگنوں کو سخت موسم میں غیر ہموار سڑکوں پر چلنے میں دشواری کا سامنا ہوتا تھا، اور ان کے لیے ایندھن اور پرزے بھی درکار ہوتے تھے جن کی فراہمی کم تھی۔ اس کے علاوہ گیس ویگنوں کے ذریعے بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو مارنے میں وقت زیادہ لگتا تھا۔ مزید یہ کہ، جرمن عملہ 'ہلاک ہونے والوں' کے جسموں کو نکالنے اور کمپارٹمنٹس کو صاف کرنے کا کام بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ مقبوضہ سوویت علاقوں میں جرمنوں کے قبضے کے مکمل عرصے کے دوران، یہودیوں کو مارنے کے لیے گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کا عمل ہی قابلِ ترجیح رہا۔

1941 میں بڑے پیمانے پر خونریزیاں

جرمنوں اور ان کے اتحادیوں اور حلیفوں نے گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کا ارتکاب جاری رکھا جس میں بعض مرتبہ سینکڑوں یا ہزاروں، بلکہ بعض اوقات دسیوں ہزاروں افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتارا گیا۔عموماً، بڑے پیمانے پر ہونے والی خونریزیاں ہی علم میں آئی ہیں۔ کیونکہ ایک تو اس میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے تھے، اور دوسرا یہ کہ بڑے پیمانے پر گولیوں کے ذریعے قتلِ عام کرنے کا عمل نسبتاً بڑے قصبوں یا شہروں کے قریب انجام دیا جاتا تھا۔ قتل کرنے والے ان قاتلانہ واقعات کو خفیہ اور مقامی آبادی سے پوشیدہ نہ رکھ سکے۔ 

آپریشن باربروسا کے ابتدائی مہینوں میں گولیوں کے ذریعے کیے گئے بڑے اجتماعی قتلِ عام میں کامینیٹس۔ پوڈولسک اور بیبن یار کی خونریزیاں شامل تھیں۔ 

مارٹن اسپیٹ ٹارنو میں یہودیوں کے قتل عام کا تذکرہ کرتے ہیں

کامینیٹس۔ پوڈولسک

26 تا 28 اگست 1941 کو، جرمن ایس ایس اور پولیس یونٹس نے، جن کی مدد یوکرینی معاونین کر رہے تھے، مقبوضہ یوکرین میں  کامینیٹس۔ پوڈولسک کے مقام پر 23,600 یہودیوں کو گولیاں مار کر قتل کیا۔ ہلاک ہونے والوں میں مقامی یہودی، اور ان کے علاوہ ہنگری کے علاقے سے جلا وطن کر کے جرمنی کے مقبوضہ علاقے میں بھیجے جانے والے یہودی بھی شامل تھے۔ 

بیبن یار

29 تا 30 ستمبر 1941 کو، ایس ایس اور جرمن پولیس یونٹس اور ان کے امداد کاروں نے یہودی کی ایک بڑی آبادی کو قتل کیا جو  بیبن یار میں کیئیو کے مقام پر بچے ہوئے تھے۔ اُس وقت بیبن یار کی حیثیت شہر سے باہر واقع ایک تنگ گھاٹی کی طرح تھی۔ آئن سیٹس گروپن رپورٹس کے مطابق، دو دن کے اندر 33,771 یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ خونریزی کے بعد بیبن یار میں واقع یہ تنگ گھاٹی ایک قتل گاہ بن گئی جہاں جرمنوں نے 1941 اور 1943 کے درمیان دسیوں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر یہودی تھے۔ یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بیبن یار میں لگ بھگ 100,000 لوگ قتل کیے گئے۔

قتل گاہیں:مختلف خونریزیوں کے مقامات

سوویت یونین سے ہتھیائے گئے علاقوں میں بعض شہروں کے قریب، جرمنوں نے قتل گاہیں بنائیں جہاں انہوں نے بار بار خونریزیاں کیں۔ ان میں سے ہر قتل گاہ میں ہزاروں لوگوں کو قتل کیا گیا، جن میں سے بیشتر یہودی تھے۔ ان میں سب سے زیادہ بدنامِ زمانہ قتل گاہیں یہ ہیں:  

    • کوونو (کونس) میں فورٹ نمبر 9
    • ریگا میں رمبولا اور بیکر نیکی جنگلات 
    • ولنا (ولنئس) کے قریب پوناری
    • منسک کے قریب مالی ٹراسٹینیٹس

ان قتل گاہوں میں، جرمنوں اور مقامی حلیفوں نے ہزاروں مقامی یہودیوں کو قتل کیا۔ انہوں نے 1941 اور 1942 میں ہزاروں جرمن، آسٹرین، اور چیک یہودیوں کو وسطی یورپ سے ان قتل گاہوں میں بھی بھیجا۔ 

آپریشن ہارویسٹ فیسٹیول

جرمن پولیس اور یوکرائن کے حلیفوں نے یہودی قیدیوں کو گولی مارنے سے پہلے کپڑے اتارنے پر مجبور کر دیا۔

ہولوکاسٹ کا گولیوں کے ذریعے سب سے بڑے اجتماعی قتلِ عام کا آپریشن سوویت یونین سے ہتھیائے گئے علاقوں میں واقع نہیں ہوا تھا۔ بلکہ، یہ عام حکومت (جنرل گورنمنٹ) میں واقع ہوا تھا۔ یہ جرمنی کے زیرِ قبضہ پولینڈ کا وہ حصہ جو جرمنی کے ساتھ شامل نہیں تھا۔ جرمن گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کے اس عمل کو آپریشن ہارویسٹ فیسٹیول (Erntefest) کہتے تھے۔ آپریشن ہارویسٹ فیسٹیول کا مقصد عام حکومت میں باقی ماندہ یہودیوں کو ہلاک کرنا تھا۔ گولیوں کے ذریعے یہ قتلِ عام 3 تا 4 نومبر 1943 کو لوبلن/مجدانیک کے حراستی کیمپ اور ٹرانیکی اور پونیاٹووا کے جبری مشقت کے کیمپوں میں انجام دیا گیا۔ جرمن ایس ایس اور پولیس یونٹس نے اس مقصد کے لیے ان کیمپوں اور ان کے علاوہ دیگر کئی کیمپوں سے یہودیوں قیدیوں کو حراست میں لیا اور اسی مقصد کے لئے بنائے گئے گڑھوں میں انہیں گولی مار کر پھینک دیا۔ 

دو دن کے اس آپریشن میں کم و بیش 42,000 یہودی جان سے گئے۔ اس پر آپریشن رین ہارڈ اختتام پذیر ہوا، جس میں جرمنوں کا منصوبہ یہ تھا کہ عام حکومت میں بسنے والے اندازاً دو ملین یہودیوں کو قتل کیا جائے گا۔ 

گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد

گولیوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام میں ہولوکاسٹ کا شکار ہونے والوں کی درست تعداد کا تعین ناممکن ہے، کیونکہ جرمنوں نے صحیح تعداد کا حساب نہیں رکھا اور جنگ کے اختتام سے قبل ہی گولیاں برسا کر قتلِ عام کرنے کی تقریباً تمام رپورٹس کو ضائع کر دیا۔ 

چند دستیاب جنگی رپورٹس اور جنگ سے قبل اور جنگ کے بعد کے یہودی آبادی کے شماریاتی جائزوں کی بنیاد پر، یہ اندازہ ہے کہ جرمنوں اور ان کے اتحادیوں اور حلیفوں نے کم و بیش 2 ملین یہودیوں کو سوویت افواج سے ہتھیائے گئے علاقے میں بندوق کی گولیوں یا گیس ویگنوں کے ذریعے اجتماعی قتلِ عام کا نشانہ بنایا تھا۔