ہالوکاسٹ کے دوران عورتیں
نازیوں نے یہودی مردوں اور عورتوں دونوں کو اذیت دینے اور ہلاک کرنے کیلئے نشانہ بنایا۔ تاہم یہودی اور غیر یہودی عورتوں کو بعض اوقات مخصوص وحشیانہ ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
انفرادی کیمپوں اور کچھ جبری کیمپوں کے بعض حصوں کو عورتوں کیلئے مخصوص کر دیا گیا۔ مئی 1939 میں نازیوں نے عورتوں کیلئے ریونز بروک کے نام سے سب سے بڑا کیمپ قائم کیا۔ 1945 میں اِس کیمپ کو آزاد کرائے جانے کے وقت تک ریونز بروک میں ایک لاکھ سے زائد عورتوں کو قید رکھا گیا۔ 1942 میں آشوٹز میں بھی عورتوں کیلئے ایک کیمپ قائم کیا گیا جہاں ریونز بروک سے نکالی جانے والی عورتوں کی پہلی کھیپ کو لایا گیا۔ پھر 1944 میں برجن بیلسن کے مقام پرعورتوں کیلئے ایک اور کیمپ قائم کیا گیا۔ ریون بروک اور آشوٹز سے ھزاروں یہودی خواتین قیدیوں کو برجن بیلسن میں منتقل کیا گیا۔
قتلِ عام سے متعلق نازیوں کی کارروائیوں میں عورتوں اور بچوں میں سے کسی کو بھی نہ بخشا گیا۔ ہر عمر کی عورتوں کو مردوں کے ساتھ ساتھ جرمن مقبوضہ سوویت علاقوں میں آئن سیٹز گروپ یعنی جرمن گشتی قاتل یونٹوں کی طرف سے قتلِ عام کا نشانہ بنایا گیا۔ عورتیں خاص طور پر وہ جن کے ساتھ چھوٹے بچے تھے اکثراوقات سب سے پہلے ہلاک کرنے والے کیمپوں کے گیس چیمبروں میں مرنے کیلئے بھیجی جاتیں۔
یہودی بستیوں یعنی گھیٹو اور کیمپوں میں نازیوں نے عورتوں کو جبری مشقت کیلئے قید کیا۔ نازی ڈاکٹروں نے اکثر اوقات یہودی اور روما خانہ بدوش عورتوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے اور دیگرغیر اخلاقی انسانی تجربات کیلئے استعمال کیا۔ یہودی بستیوں اور کیمپوں دونوں جگہوں پر عورتوں کی خاص طور پر مارپیٹ کی جاتی اور ان کی عصمت دری کی جاتی۔ اکثر حاملہ یہودی عورتیں اپنے حمل کو چھپائے رکھتی تھیں یا پھر اُنہیں اسقاط حمل کیلئے مجبور کر دیا جاتا تھا۔
بیالسٹاک ہائیکہ گراس مین جیسی چند عورتیں گھیٹو مزاحمتی تنظیموں کی لیڈر یا رکن تھیں جبکہ کچھ دوسری عورتیں کیمپوں میں مسلح مزاحمت میں سرگرم عمل تھیں۔ آشوٹز کیمپ میں اکتوبر 1944 کی قیدیوں کی بغاوت کے دوران ایلا گارٹنر، ریجینا سافر، ایسٹیرہ وجسبلوم اور روزہ روبوٹا نے گیس چیمبرز کو دھماکے سے اُڑانے اور ایس ایس کے افراد کو ہلاک کرنے کیلئے بارود فراہم کیا۔ کچھ دوسری عورتیں نازیوں کے مقبوضہ یورپ میں یہودیوں کو تعاون فراہم کرنے اور اُنہیں بچانے میں سرگرم تھیں۔ اِن میں یہودی چھاتا فوجی ھنّا زینس جو بعد میں پکڑے جانے کی بعد ہلاک کر دی گئیں اور صہیونی تحریک میں سرگرم جیسی فلیشمین بھی شامل تھیں جن کے پریکوونا سکوپینا نامی ورکنگ گروپ نے سلوواکیہ سے یہودیوں کو ڈی پورٹ ہونے سے روکنے کی کوششیں کیں تھیں۔
ہالوکاسٹ دور کے دوران لاکھوں عورتوں کو اذیتیں دی گئیں اور اُنہیں ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم قصہ مختصر یہ کہ عورتیں اپنے عورت ہونے کے بجائے نازیوں کے نسلی عصبیت پر مبنی تصورات یا اُن عورتوں کے مذہبی عقائد اور سیاسی وابستگیوں کی وجہ سے نشانہ بنیں۔