جرمنوں نے ٹارنو پر 1939 میں قبضہ کیا۔ 1940 میں مارٹن اور اُن کے خاندان پر زور ڈالا گیا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دیں۔ یہودیوں کے پہلے اجتماعی قتل عام کے دوران مارٹن گھر میں ایٹک میں چھپ گئے۔ یہ خاندان پکڑ دھکڑ کے دو واقعات کے دوران چپھا رہا۔ مئی 1943 میں مبینہ طور پر جرمن جنگی قیدیوں کے تبادلے کی غرض سے اُن کا اندراج کیا گیا کیونکہ مارٹن کی والدہ امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ اُنہیں ریل گاڑی کے ذریعے کراکاؤ لیجایا گیا اور پھر اُنہیں برجن بیلسن حراستی کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ مارٹن کو 1945 میں آزاد کرایا گیا اور وہ 1947 میں امریکہ چلے آئے۔
ہم نے رات کے وقت جرمن پہرے داروں کے ماتحت یہودیوں کی قطاروں کو آتے ہوئے سنا۔ یہ مسلسل ہوتا رہا۔ وہ ہمارے گھر کے پاس سے گزرتے تھے کیونکہ ہمارا گھر شہر کے مضافات میں واقع تھا۔ وہ اُنہیں قبرستان کی طرف سے شہر کے عقب میں واقع جنگل کی طرف مارچ کراتے لے گئے۔ اور جیسا کہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا، اُن سب کو وہاں گولی مار ہلاک کر دیا گیا۔ دن کے وقت میں انھیں جھرنوں میں سے دیکھا کرتا۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ مجھے نہیں دیکھنا چاہیئے لیکن میں نہ مانتا کیونکہ میں ایک بچہ تھا اور جاننا چاہتا تھا۔ چھت سے دیکھتے ہوئے قبرستان اور لاشوں سے بھری ویگنیں آتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ وہ یہودیوں کو بھی گروپوں میں وہاں لا رہے تھے تاکہ وہ خندقیں کھودیں اور پھر لاشوں کو اُن میں ڈال دیں۔ جب وہ یہودی خندقیں کھود کر لاشوں کو دفن کر دیتے تو پھر اُنہیں بھی گولی مار دی جاتی اور مذید لوگوں کا گروپ آتا اور وہ اُنہیں بھی خندقوں میں پھینک دیتے۔ لاشوں کے اوپر چونا بکھیر دیا جاتا پھر مذید گروپ لائے جاتے جو اِن خندقوں کو بند کر کے نئی خندقیں کھودتے۔ وہ حاملہ خواتین کو بھی لے کر آئے اور وہ اُن پر گولی استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ اُن کیلئے وہ چھرے استعمال کرتے تھے۔ ماؤں کی چیخیں ۔۔۔ اور وہ ماؤں کی گود میں بچوں کو چھرے سے کاٹ ڈالتے۔ میں بچوں کی چیخیں اب تک محسوس کر سکتی ہوں۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.