آسکر شنڈلر (1908-1974)موراویہ کے شہر سویٹاوی (زویٹاؤ) میں پیدا ہوئے۔ موراویہ اُس وقت آسٹرو ہنگریرین بادشاہت کا ایک صوبہ تھا۔ شنڈلر نسلی طور پر جرمن اور کیتھولک تھےاور اُنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران 1200 کے قریب یہودیوں کو آشوٹز جلاوطن ہونے سے بچایا۔ 1936 میں شنڈلر نے جرمن آفس آف ملٹری انٹیلیجنس کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے فروری 1939 میں نازی پارٹی میں شمولیت اختیار کر کی۔ وہ ایک طالع آزما کاروباری شخصیت تھے اور اپنی زندگی میں اشیاء کے بارے میں ایک خاص نفاست کے حامل تھے۔ یوں اس بات کا امکان بظاہر کم تھا کہ وہ جنگ کے زمانے میں لوگوں کو بچانے کیلئے کوئی کردار ادا کریں گے۔

پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد شنڈلر کراکاؤ چلے آئے۔ مقبوضہ پولینڈ میں کاروباروں کو "آریائی" بنانے کے جرمن پروگرام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنہوں نے نومبر 1939 میں دھاتی اشیاء کی تیاری کا ایک کاروبار خرید لیا جو یہودی ملکیت تھا۔ اُنہوں نے اس کیلئے ایمیلیا کے نام سے ایک فیکٹری بھی بنائی۔ شنڈلر دو دیگر فیکٹریاں بھی چلا رہے تھے مگر صرف ایمیلیا میں ہی اُنہوں نے قریبی گھیٹو یعنی یہودی بستی کراکاؤ سے یہودی جبری مزدوروں کو کام پر رکھا۔ مارچ 1943 میں یہودی بستی کے بند کئے جانے کے دوران شنڈلر نے یہودی مزدوروں کو رات کے وقت فیکٹری کے اندر محفوظ حالت میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی۔ 1944 میں اپنے عروج کے زمانے میں ایمیلیا میں 1700 مزدور کام کر رہے تھے جن میں سے 1000 لے لگ بھگ یہودی مشقتی مزدور تھے جنہیں بالآخر پلاسزاؤ حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

اگرچہ پلاسزاؤ کیمپ میں منتقل ہونے والے قیدیوں کو ظالمانہ حالات کا سامنا تھا، شنڈلر نے بار بار اُن کے حق میں کبھی رشوت دے کر اور کبھی ذاتی سفارکاری کے ذریعے مداخلت کی۔ اس دعوے کی حمایت میں کہ جرمن جنگی کارروائیوں کیلئے قیدی لازمی حیثیت رکھتے ہیں، شنڈلر نے ایمیلیا میں گولہ بارود کی تیاری کے ایک شعبے کا اضافہ کر دیا۔ شنڈلر نے اپنے کارخانے میں کام کیلئے رجسٹرڈ 1000 کے لگ بھگ یہودی جبری مزدوروں کے علاوہ فریبی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مذید 450 یہودیوں کو بھی ایمیلیا میں رہنے کی اجازت دے دی۔ ان یہودی افراد کی حفاظت اور کچھ اور کاروباری رابطوں کے باعث جرمن حکام نے اُن پر بدعنوانی اور یہودیوں کی غیر قانونی حمایت کا شبہ ظاہر کر دیا۔ ایس ایس اور پولیس اہلکاروں نے تین مرتبہ اُن کو گرفتار کیا لیکن تینوں بار وہ اُن پر کوئی فردِ جرم عائد نہ کر سکے۔

اکتوبر 1944 میں شنڈلر نے اپنی تنصیبات کو موراویہ کے مقام برنلٹز (برنینچ) منقتل کرنے کی اجازت حاصل کر لی۔ اُن کے نائبین میں سے ایک نے نئی فیکٹری میں کام کیلئے درکار یہودی قیدیوں کی فہرستوں کے کئی خاکے تیار کئے۔ یہ فہرستیں مجموعی طور پر شنڈلر کی فہنرستوں کے نام سے موسوم کی گئیں۔ اگرچہ اُن کی فیکٹری کا اندراج گولہ بارود کی فیکٹری کے طور پر کیا گیا تھا لیکن تقریباً آٹھ ماہ کے دوران یہاں صرف اتنا ہی گولہ بارود تیار کیا گیا جو ایک ویگن میں پورا آ سکتا تھا۔ پیدار کے جعلی اعدادوشمار پیش کر کے شنڈلر نے جرمن حکام کو اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کا جواز فراہم کیا۔

شنڈلر اور اُن کی بیگم نے 1949 میں ارجنٹینا جا کر سکونت اختیار کر لی۔ اُنہیں 1962 میں اسرائیلی ہولوکاسٹ میموریل ید واشیم نے "اقوام کے درمیان ایک راست باز شخصیت" کا اعزاز دیا۔ اکتوبر 1974 میں شنڈلر جرمنی میں انتہائی تنگدستی کی حالت میں ایک بالکل غیر معروف شخص کے طور پر انتقال کر گئے۔ شنڈلر کی کہانی اس وقت زیادہ توجہ کا مرکز بن گئی جب اسٹیون سپیلبرگ کی مقبول فلم شنڈرز لسٹ 1993 میں منظرِ عام پر آئی۔ شنڈلر نے مجموعی طور ہولوکاسٹ کے دوران تقریباً 800 مرد یہودیوں اور 300 سے 400 یہودی عورتوں کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔