ہولوکاسٹ کے بعد
1945 میں جب اینگلو امریکی اور سوویت فوجی حراستی کیمپوں میں داخل ہوئے تو اُنہیں وہاں لاشوں، ہڈیوں اور انسانی راکھ کے ڈھیر ملے جو نازیوں کی وسیع پیمانے پر قتل و غارتگری کا ثبوت تھے۔ فوجیوں کو ھزاروں افراد زندہ بھی ملے جن میں یہودی اور غیر یہودی دونوں ہی شامل تھے۔ لیکن وہ بھوک پیاس اور بیماری کے باعث نڈھال تھے۔ بچ جانے والوں کیلئے اپنی زندگی کی ازسرنو تشکیل ایک دشوار کام تھا۔
آزادی کے بعد بچ جانے والے بیشتر یہودیوں کو سام دشمنی (یہودیوں سے نفرت) کی بنا پر اپنے پرانے گھروں کو واپس جانے میں خدشات لاحق تھے۔ یہ سام دشمنی یورپ کے کئی حصوں میں موجود تھی اور پھر اُس خوف کے باعث بھی جس سے وہ دوچار رہے تھے۔ کچھ لوگ جو گھروں کو پہنچنے میں کامیاب ہو بھی گئے، اُنہیں اپنی زندگیوں کا خطرہ تھا۔ مثال کے طور پر پولینڈ میں جنگ کے بعد کئی پوگرومز (یہودیوں کے خلاف پُرتشدد فسادات) ہوئے۔ اِن میں سب سے بڑا فساد 1946 میں کئیلتا میں ہوا جب پولینڈ کے افراد نے ایک بلوے میں کم سے کم 42 یہودیوں کو ہلاک کر دیا اور متعدد کو زدوکوب کیا۔
ترک وطن کے امکانات نہ ہونے کے ساتھ ہالوکاسٹ سے بچ جانے والے ھزاروں بے گھر افراد نے مغربی حلیفوں کے آزاد کرائے گئے مغربی یورپی علاقوں کا رُخ کیا جہاں اُنہیں جرمنی کے برجن۔ بیلسن جیسے سینکڑوں پناہ گزیں مراکز میں اور بے گھر افراد کے کیمپوں میں رکھا گیا۔ اقوام متحدہ کی امدادی اور بحالی کی انتظامیہ (یو۔ این۔ آر۔ آر۔اے) اور امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی قابض فوجوں نے اِن کیمپوں کا بندوبست سنبھالا۔
کافی بڑی تعداد میں مختلف یہودی اداروں نے بے گھر ہونے والے یہودی افراد کی معاونت کیلئے کام کیا۔ امریکی یہودی مشترکہ تقسیم کاری کمیٹی نے ہالوکاسٹ سے بچ جانے والوں کیلئے خوراک اور کپڑوں کی فراہمی کی جبکہ تربیت کے ذریعے بحالی کی تنظیم (او۔ آر۔ ٹی) نے پیشہ ورانہ بنیادوں پر تربیت دینے کا اہتمام کیا۔ پھر پناہ گزینوں نے خود اپنی تنظیمیں قائم کیں اور متعدد افراد نے فلسطین میں ایک آزاد یہودی مملکت کی تشکیل کیلئے محنت کی۔
ہالوکاسٹ سے بچنے والوں کی سب سے بڑی تنظیم شیرت ھا۔ پلیٹاہ (عبرانی زبان میں بچ جانے والوں کے بقیہ آثار) نے نقل مکانی کے زیادہ مواقع کیلئے زور دیا۔ لیکن امریکہ کیلئے موجود کوٹہ سسٹم پر پابندیوں کے تحت امریکہ میں قانونی نقل مکانی ابھی بھی محدود تھی۔ برطانیہ نے فلسطین کیلئے نقل مکانی پر پابندیاں عائد کر دیں۔ یورپ میں متعدد سرحدوں کو بے گھر افراد کیلئے بند کر دیا گیا۔
یہودی بریگیڈ گروپ (برطانوی فوج کا ایک فلسطینی یہودی یونٹ) 1944 کے اواخر میں قائم کیا گیا۔ وسطی یورپ میں بے گھر ہونے والے سابق جنگجوؤں کے ساتھ ملکر یہودی بریگیڈ گروپ نے بریہا (عبرانی میں "پرواز" یا "فرار") کی تشکیل کی۔ اِس تنظیم کا مقصد یورپ سے یہودی پناہ گذینوں کو فلسطین کیلئے اخراج میں سہولت فراہم کرنا تھا۔ فلسطین میں پہلے سے مقیم یہودیوں نے بحری جہاز کے ذریعے غیر قانونی نقل مکانی کا بندوبست کیا (جسے عالیہ بیٹ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے)۔ تاہم برطانوی حکام نے اِن جہازوں کو پکڑ لیا اور اُن میں سے بہت سے جہازوں کو واپس بھیج دیا۔ 1947 میں برطانیہ نے ایکسوڈس 1947 نامی جہاز کو واپس جرمنی جانے پر مجبور کر دیا۔ اِس جہاز میں ہالوکاسٹ سے بچ جانے والے 4500 افراد سوار تھے جنہیں فلسطین لیجایا جا رہا تھا۔ متعدد واقعات میں فلسطین میں داخلے کی اجازت نہ پانے والے یہودی پناہ گزینوں کو برطانیہ نے حراست میں لیکر بحیرہ روم کے جزیرے قبرص کے حراستی کیمپوں میں قید کر دیا۔
مئی 1948 میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے ساتھ یہودی بے گھر افراد اور پناہ گزینوں نے نئے خود مختار ملک میں مسلسل داخل ہونا شروع کیا۔ 1953 تک ممکنہ طور پر ایک لاکھ 70 ھزار کے لگ بھگ یہودی بے گھر افراد اور پناہ گزیں اِس ملک میں نقل مکانی اختیار کر چکے تھے۔
دسمبر 1945 میں صدر ہیری ٹرومین نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت نازی حکومت کے ہاتھوں بے گھر ہونے والے افراد کیلئے امریکہ میں نقل مکانی کیلئے کوٹے کی پابندی نرم ہو گئی۔ اِس حکمنامے کے تحت 41 ھزار سے زائد بے گھر افراد نے امریکہ میں نقل مکانی کی۔ اِن میں سے تقریباً 28 ھزار یہودی تھے۔ 1948 میں امریکی کانگریس نے بے گھر افراد کیلئے قانون کی منظوری دے دی جس کے تحت یکم جنوری 1949 سے 31 دسمبر 1952 کے دوران امریکی نقل مکانی کیلئے بے گھر افراد کو تقریباً چار لاکھ ویزے جاری ہوئے۔ اِن چار لاکھ افراد میں سے تقریباً 68 ھزار یہودی تھے۔
یورپ میں دوسرے یہودی پناہ گزینوں اور بے گھر افراد نے کنیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، مغربی یورپ، میکسیکو، جنوبی امریکہ اور جنوبی افریقہ کی طرف نقل مکانی کی۔