پس منظر

1942 اور 1944 کے درمیان مغربی بیلو رشیا (بیلاروس) میں فعال بیلسکی حامی گروپ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کے خلاف سب سے اہم یہودی مزاحمتی کوششوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

اس کے ممبران جرمن اور ان کا ساتھ دینے والوں کے ساتھ لڑائی کرتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بیلسکی گروپ کے سربراہان یہودیوں، خاص طور پر جنگلوں میں فرار ہونے میں کامیاب ہونے والی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے لئے پناہ کے انتظام پر بھی زور دیتے تھے۔ بیلسکی گروپ کے زیر تحفظ 1200 سے زائد یہودی جنگ سے زندہ بچ نکلے، جو ہولوکاسٹ کے دوران بچانے کی سب سے کامیاب کوششوں میں سے ایک تھا۔

22 جون 1941 کو سوویت یونین پر جرمن حملے کے بعد، جرمنوں نے مغربی بیلا روس پر قبضہ کر لیا (1939 سے قبل مغربی بیلا روس پولینڈ کا حصہ تھا؛ 1939 میں پولینڈ پر جرمنی کے حملے کے بعد اسے جرمنی کے ساتھ معاہدے کے تحت سوویت یونین میں شامل کر دیا گيا)۔ وہاں، جرمن حکام نے جولائی 1941 اور 1942 کے موسم بہار کے درمیان نوووگروڈیک ضلع (بشمول لیڈا اور نوووگروڈيک شہر) میں دسیوں ہزار یہودی مار ڈالے۔ جن یہودیوں کو گولی سے ہلاک نہيں کیا گیا، انہیں ضلع بھر میں واقع یہودی بستیوں میں محدود کر دیا گيا۔ جب 1942 اور 1943 کے درمیان ان یہودی بستیوں کو ختم کر دیا گیا، جرمن ایس ایس اور پولیس کے یونٹس نے وہاں باقی رہ جانے والے بیشتر کو قتل کر دیا۔

دسمبر 1941 میں نوووگروڈیک یہودی بستی میں اپنے والدین اور دو بھائیوں کے قتل کے بعد بیلسکی خاندان کے زندہ رہنے والے تین بھائیوں - ٹویا (1906-1987)، اسائل (1908-1945) اور زوس (1995 - 1910) نے حامی گروپ قائم کیا۔ شروع میں تینوں بیلسکی بھائیوں نے اپنی جانیں اور اپنے گھر والوں کی جانیں بچانے کی کوششیں کیں۔ وہ قریبی زیبیلوو اور پیریلیز جنگلوں میں فرار ہوگئے جہاں انہوں نے تقریبا 30 گھر والوں اور دوستوں پر مشتمل دستے کی بنیاد رکھی۔

خاندان والوں نے گروپ کی سربراہی کے لئے سابقہ صیہونی کارکن ٹویا بیلسکی کا انتخاب کیا، جس نے پولینڈ کی فوج میں بھی خدمات انجام دی تھیں۔ اُن کے بھائی اسائیل اُن کے نائب مقرر ہوئے جبکہ زوس کو جاسوسی کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کا چوتھا اور عمر میں بہت چھوٹا بھائی اہارن (-1927) بھی اس گروپ کا حصہ تھا۔

بیلسکی خاندان اسٹانکیوک کے گاؤں میں کھیتی باڑی کرتا تھا اور بھائی اس علاقے سے بخوبی واقف تھے۔ علاقے، روایات اور لوگوں کے ساتھ ان کی واقفیت جرمن حکام اور ان کے بیلا روسی مددگاروں سے چھپنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ غیریہودی بیلاروسی دوستوں کی مدد سے انہوں نے اسلحہ جمع کیا۔ بعد میں بیلسکی حامیوں نے اس اسلحے میں جرمن اسلحہ، سوویت اسلحہ اور سوویت حامیوں کا فراہم کردہ اسلحہ بھی شامل کر لیا۔

ٹوویا بیلسکی کا بنیادی مقصد اپنے ہم مذہبوں کی جانیں بچانا تھا۔ بیلسکی یہودیوں نے قریبی واقع لیڈا، نوووگروڈيک، منسک، آئیوی، میر، بارانوک اور دوسری یہودی بستیوں کے یہودیوں کو فرار ہونے اور جنگل میں ان کا ساتھ دینے کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کی۔ بیلسکی اکثر یہودی بستیوں میں اپنے آدمی بھیج کر لوگوں کو جنگل میں پہنچنے میں مدد بھی کرتے تھے۔ 1942 میں ایک خصوصی مشن نے آئیو کی یہودی بستی کے ختم ہونے سے پہلے سو سے زائد یہودیوں کی جان بچائی۔ بیلسکی اسکاؤٹ مسلسل فرار کے ممکنہ راستے تلاش کرتے رہتے تھے تاکہ ایسے یہودیوں کو فرار ہونے میں مدد فراہم کی جا سکے جنہیں تحفظ کی ضرورت تھی۔

چھوٹے خاندانی گروپوں کی شکل میں جنگلوں میں چھپنے والے یہودی بیلسکی گروپ میں شامل ہوتے چلے گئے؛ سوویت حامی تنظیموں میں خدمات انجام دینے والے یہودی بھی اپنے یونٹس کی سام دشمنی سے بچنے کے لئے بیلسکیوں کے ساتھ مل گئے۔ 1942 کے اختتام تک بیلسکی کے گروپ میں زندہ بچنے والوں کی تعداد 300 سے زائد ہو گئی۔

1943 کے موسم گرما تک یہ گروپ جنگل میں بنجاروں کی طرح زندگی گزارتا رہا۔ تاہم اگست 1943 میں جرمنوں نے علاقے میں روسی، پولش اور یہودی حامیوں کی تلاش شروع کر دی۔ انہوں نے 20 ہزار سے زائد فوجی عملے، اور ایس ایس اور پولیس کے افسران کو اس کام پر مامور کیا۔ نیز انہوں نے ٹویا بیلسکی کو پکڑنے کے لئے مفید ثابت ہونے والی معلومات کے لئے 100،000 ریخ مارکس کے انعام کا اعلان بھی کیا۔ بیلسکی گروپ کو، جو اب تقریبا 700 یہودیوں پر مشتمل تھا، جرمن پٹرول کی نظر میں آنے کا خاص طور پر خطرہ تھا۔ گروپ کو اس بات کا بھی خوف تھا کہ آس پاس کے کسان، جو انہیں کھانے پینے کا سامان فراہم کرتے تھے، ان کی مخبری کر دیں گے۔ لہذا، دسمبر 1943 میں بیلسکی گروپ نے نیلیبوکی کے جنگل میں اپنا مستقل ٹھکانہ قائم کر لیا۔ یہ لیڈا کے مشرق میں او نوووگروڈیک کے شمال مشرق میں واقع دریائے نیمین کے دائيں کنارے میں ایک دلدلی علاقہ تھا جس تک رسائی بہت مشکل سے ممکن تھی۔

اس دقیانوسی اور غیر ممکنہ ماحول میں بیلسکی گروپ نے ایک کمیونٹی قائم کر لی۔ گروپ کے چند ممبران کی مخالفت کے باوجود ٹویا بیلسکی تمام یہودی پناہ گزینوں کو، بلالحاظ عمر اور جنس کے قبول کرنے اور حفاظت کرنے کے ارادے پر قائم رہے۔ بیلسکیوں نے کبھی بھی کسی کو منع نہیں کیا، جس کی وجہ سے جنگل میں موبائل گھریلو ماحول قائم ہو گیا۔ گروپ میں ہنرمند یہودی پناہ گزینوں کو ورک شاپس میں تقسیم کیا، جن میں کم از کم 200 افراد ملازمت پر مامور تھے، جس میں موچی، درزی، چمڑی اور لوہے کا کام کرنے والے اور بڑھئی شامل تھے۔

اس کے علاہ گروپ نے آٹے کی چکی، بیکری اور لانڈری قائم کی۔ گروپ کی انتظامیہ نے بوڑھے لوگوں کے لئے پرانی وضع کے انتظامات کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے اسکول، یہودی عبادت گاہ، عدالت اور قید خانہ تک تعمیر کر لیا۔ کام کرنے کے گروپ کیمپ کو کھانے پینے کا سامان مہیا کرتے اور جہاں ممکن ہو وہاں گندم اور جو کی کھیتی باڑی کے لئے زمین کو صاف کر دیا جاتا تھا۔

دوسرے حامی گروپوں کے ساتھ تعاون

جہاں جرمن موجود نہ ہوتے، نیلیبوکی کا جنگل سوویت حامیوں کے زیرانتظام رہتا تھا۔ باوجود اس کے کہ بیلسکی گروپ کا کسی نظریے کی طرف جھکاؤ نہيں تھا، ٹویا بیلسکی اور دیگر سربراہان سوویت حامیوں کے ساتھ تعاون کرتے تھے: بیلسکی کے علاقے کے سوویت حامی کمانڈر جنرل ویسیلی ییفیمووک چرنی شیو (جن کا خفیہ نام "پلیٹن" تھا) کے ساتھ اُن کے کافی دوستانہ تعلقات تھے۔ کئی سویت حامی دستوں میں سام دشمن خیالات کے عام ہونے کے باوجود جنرل "پلیٹن" بیلسکی گروپ کو تحفظ فراہم کرتے رہے۔ وہ سوویت حامیوں کے لئے ایک مینٹیننس بیس کی حیثیت سے کیمپ کے کردار سے واقف تھے۔ 1944 میں کیمپ کے سربراہان کو سوویت حامیوں کے ہیڈکوارٹر سے اسلحہ مل گیا۔

بیلسکی نے مسلح کارروائیوں میں ملوث 150 افراد میں سے یونٹ مہیا کرنے کی سوویت رخواستوں کو مسترد کر دیا۔ وہ شادی شدہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو تنہا نہيں چھوڑنا چاہتے تھے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ وہ گروپ کے مسلح افراد کے مسلح تحفظ کے بغیر زندہ نہيں رہ پاتے۔ یہ فکر 1943 میں اپنے تمام گروپ کو جنگل کے دور دراز علاقوں میں منتقل کرنے کی ایک اور وجہ تھی۔ اس کے بعد، باوجود اس کے کہ گروپ حقیقی طور پر متحد اور ٹویا بیلسکی کی سربراہی کے تحت رہا، رسمی طور پر یہ گروپ سوویت حامیوں کے کیرو بریگیڈ کے "کیلینن" اور "آرڈزہونوکڈزے" دستوں میں تقسیم ہو گیا۔

جانیں بچانے اور کیمپ میں لڑائی میں حصہ نہ لینے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بیلسکی کے گروپ نے کئی عملی کارروائیاں بھی کیں۔ اس نے بیلوروسی مددگار پولیس پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامی کسانوں پر بھی حملے کئے جن پر یہودیوں کو قتل کرنے کا شک تھا۔ اس گروپ نے جرمن ٹرینوں کو غیرفعال کیا، ریل کی پٹریاں دھماکے سے اڑائيں، پُل کئے اور یہودی بستیوں سے فرار ہونے والوں کی مدد کی۔ اکثر بیلسی کے لڑاکا افراد جرمن گارڈ اور تنصیبات کے خلاف عملی کارروائیوں میں سوویت حامیوں کا ساتھ بھی دیتے۔ ان کارروائیوں میں اُنہوں نے کئی جرمنوں اور ان کا ساتھ دینے والے بیلوروسی شرکاء کو ہلاک کر دیا۔

آزادی

22 جون 1944 کو سوویت افواج نے مشرقی بیلو روس میں حملے شروع کر دئے۔ چھ ہفتے کے اندر اندر، سوویت فوج نے جرمن فوجی گروپ کے مرکز کو تباہ کر کے پورے بیلوروس کو آزاد کرتے ہوئے مغرب میں پولینڈ کے دریائے وسٹولا کی جانب پیش قدمی کی۔ آزادی کے وقت، بیلسکی گروپ 1230 افراد پر مشتمل تھا اور اپنی انتہاء کو پہنچ چکا تھا۔ اس میں سے 70 فیصد افراد عورتیں، بوڑھے اور بچے تھے جو بصورت دیگر جرمن قبضے میں مارے جا چکے ہوتے۔ بیلسکی کے گروپ کے اندازاً 50 ممبران مارے گئے، جن کی تعداد نہ صرف دوسرے حامی دستوں کے مقابلے میں بلکہ علاقے میں یہودی گروپوں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد، 1945 میں ٹویا اور زوس بیلسک کے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کر کے فلسطین چلے گئے۔ دونوں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا سبب بننے والی جنگ میں اسرائیلی افواج میں خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ ہجرت کر کے امریکہ چلے گئے۔ اسائل کو سوویت فوج میں بھرتی کیا گیا۔ وہ فروری 1945 میں مشرقی پرشیا میں جنگ میں مارے گئے۔