1945 اور 1951 کے درمیان ہولوکاسٹ کے بعدریاستہائے متحدہ امریکہ (اور اس کے ساتھ برطانیہ) نے جرمنی، آسٹریا، اٹلی اور چیکوسلواکیا کے مقبوضہ علاقوں سے بے دخل ہونے والے دس لاکھ سے زائد افراد کی دیکھ بھال کی۔ اُن کی تعداد 1945 میں اپنی انتہاء کو پہنچی جن میں 250،000 یہودی بھی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے ریلیف اور ری ہیبی لیٹیشن ایجنسی اور کئی نجی ایجنسیوں نے مشرقی حامیوں کو اس چیلنج کو پورا کرنے میں مدد فراہم کی۔

ستمبر 1945 تک یہودی اور غیریہودی بے دخل افراد انہی کیمپوں میں رہتے تھے۔ اس ماحول میں ہولوکاسٹ میں نشانہ بننے والے یہودی ظلم و ستم روا رکھنے والے سابق افراد اور ہولوکاسٹ کی یاد دلانے والی سام دشمن خیالات کا اظہار کرنے والے افراد کے ساتھ رہتے تھے۔ عدم تحفظ کا شکار ہونے والے یہودیوں نے اس ماحول پر سخت احتجاج کیا۔

کئی یہودی امریکی فوجیوں کے ہاتھوں غیرحساس اور سخت سلوک کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ جرمن پولیس کو کیمپ میں ممنوعہ اشیاء کی تلاشی لینے کی اجازت بھی حالیہ ہولوکاسٹ سے بچنے والوں کو ذہنی اذیت پہنچانے کا باعث تھی۔ بویریا میں واقع کیمپوں میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے ساتھ سلوک پر احتجاج نے صدر ہیری ایس ٹرومین کو ارل ہیریسن، یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے لاء اسکول کے ڈین کو تحقیق کے لئے جرمنی میں امریکی مقبوضہ علاقوں میں جانے کیلئے کہا۔

اگست 1945 میں فائل کی جانے والی ہیریسن کی رپورٹ پڑھنے کے بعد ٹرومین نے یہودیوں اور غیریہودیوں کو علیحدہ رکھنے اور کیمپوں میں زندہ بچنے والے یہودیوں کے ساتھ زيادہ حساس سلوک کا حکم دیا۔ اس کے بعد امریکی حکام نے رہن سہن میں قابل قدر بہتری لانے کی کوششیں کیں، جس میں نجی یہودی امدادی ایجنسیوں کو کیمپوں میں کام کرنے کی اجازت دینا بھی شامل تھا۔ انہوں نے رہائشیوں کو زیادہ آزادی بھی دی۔

صدر ٹرومین نے بے دخل ہونے والے یہودی افراد کے لئے مزید کھلی ہجرت کی پالیسی کی بھی حمایت کی۔ صدارتی حکم کے تحت 1946 اور 1948 کے درمیان 16000 یہودی پناہ گزین ریاستہائے متحدہ امریکہ میں داخل ہوئے۔ 1948 میں بے دخل افراد کے ایکٹ کے پاس کرنے کے بعد، کانگریس نے موجود کوٹا سسٹم سے بڑھ کر 400،000 مہاجرین کو ویزا دیا۔ ان میں سے 80،000 ویزے یہودیوں کو دئے گئے تھے۔