پہلی جنگ عظیم کے بعد بھاری بھرکم جنگی تاوان کے ساتھ ساتھ 1920 کی دہائی میں یورپ بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی - ایک مالی طور پر تباہ کن جنگ کا ایک اور نتیجہ - 1923 تک جرمن ریخ مارک کی بتدریج گھٹتی ہوئی قدر کا سبب بن چکے تھے۔ اس حد سے زيادہ بڑھتے ہوئے افراط زر کے ساتھ ساتھ 1929 میں شروع ہونے والی عظیم کساد بازاری کے اثرات جہاں جرمنی کی معیشت کیلئے تشویشناک عدم استحکام کی صورت میں سامنے آئے وہاں متوسط طبقے کی ذاتی بچت کو ختم کرنے اور وسیع و عریض پیمانے پر بے روزگاری کا باعث بن بھی بنے۔

یہ مالی بدحالی سماجی بدامنی کا بہت بڑا سبب تھی، جس کی وجہ سے پہلے ہی سے کمزور ویمار جمہوریت عدم استحکام کی جانب بڑھنے لگی۔ جرمنی کی اہمیت ختم کرنے کے لئے مشرقی یورپی قوتوں کی کوششوں کی وجہ سے جرمنی کے جمہوری سربراہان کو کمزور اور علیحدہ کیا جارہا تھا، اور اس کی وجہ سے دوبارہ عسکری طاقت میں اضافے اور توسیع کے ذریعے جرمنی کے وقار کو بحال کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔

دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں رونما ہونے والی سماجی اور اقتصادی بدحالی نے انتہائی شدت سے جرمنی کی کمزور جمہوریت کو اور بھی غیر مستحکم کر دیا اور ویمار جرمنی میں کئی بنیادپرست اور قدامت پرست پارٹیاں جنم لینے لگیں۔ ورسیلز کی سخت شقوں کے حوالے سے عوام کو یہ یقین ہونے لگا کہ "نومبر کے مجرموں" نے جرمنی کو دھوکا دیا تھا۔ اس سے مراد وہ لوگ تھے جنہوں نے نئی ویمار حکومت کو تشکیل دینے میں مدد کی تھی، اور جنہوں نے امن کی صورت حال قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس کی جرمن خواہش کررہے تھے، لیکن جس کے نتیجے میں ورسیلز کا معاہدہ طے پایا۔

کئی جرمن یہ بھول گئے کہ انہوں نے قیصر کے زوال کی حمایت کی تھی، انہوں نے شروع میں پارلیمانی جمہوری اصلاحات کو خوش آئيند قرار دیا تھا، اور صلح پر جشن منایا تھا۔ انہيں صرف یہ یاد رہا تھا کہ جرمنی کے بائيں سوشلسٹ، کمیونسٹ اور یہودیوں نے جرمن سرزمین پر بیرون ملک کی افواج کے قدم نہ رکھنے کے باوجود جرمن وقار کو ایک شرمناک امن کی خاطر قربان کردیا تھا۔ جرمنی کے جنگ کے زمانے کے فوجی سربراہوں نے، جو اب فوج سے دستبردار ہوچکے تھے، اس Dolchstosslegende (دھوکا دہی کی افواہ) کو شروع کر کے پھیلانا شروع کیا تھا۔ انہيں بخوبی علم تھا کہ 1918 میں جرمنی مزيد جنگ لڑنے کے قابل نہ تھااور انہوں نے قیصر کو امن کا مقدمہ چلانے کا مشورہ دیا تھا۔ اس سے جرمنی کی نازک جمہوریت کے تجربے کو برقرار رکھنے کے لئے عہد بستہ جرمن سوشلسٹ اور آزاد خیال حلقوں کی مزید بدنامی ہوئی۔ تاریخ دان فریڈریخ مینیک اور نوبل پرائز جتنے والے مصنف تھومس مان جیسے

Vernunftsrepublikaner ("منطقی طور پر ریپبلکن")، نے شروع میں جمہوری اصلاح کی مذمت کی۔ وہ اب ویمار جمہوریہ کو نسبتاً سب سے کم خراب ترین اختیار سمجھ کر قبول کرنے پر مجبور تھے۔ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کو بنیاد پرست دائيں اور بائيں بازو کی جانب علیحدگی سے دور کرنے کی کوشش کی۔ جرمن قوم پرست قدامت پسندوں کے جبراً ورسیلز کے معاہدوں کی ترمیم قابل احترام حلقوں میں زور پکڑنے لگی۔ دوسری طرف روس میں بولشیوک انقلاب اور ہنگری اور جرمنی میں قلیل مدتی کمیونسٹ انقلاب یا بغاوت کے نتیجے میں کمیونزم کے خطرے نے جرمن سیاسی رجحان کو فیصلہ کن طور پر قدامت پسندی کی جانب دھکیل دیا تھا۔

سیاسی جدت پسندی کے حامی احتجاجیوں کو سیاسی بدامنی شروع کرنے پر سزائے قید سنادی گئی۔ دوسری طرف ایڈولف ہٹلر جیسے بنیاد پرست قدامت پسند کارکنوں نے، جس کی نازی پارٹی نے بیویریا کی حکومت کو گرانے اور نومبر 1923 میں بئیر ہال پٹش میں "قومی انقلاب" شروع کرنے کی کوشش کی تھی، بغاوت کے لئے پانچ سال کے بجائے صرف نو ماہ کی سزا کاٹی، جبکہ بغاوت کی سزا موت تھی۔ قید میں اس نے اپنا سیاسی منشور، Mein Kampf (میری جدوجہد)تحریر کیا۔

پہلی جنگ عظیم اور اس کی پریشان کن امن کی شرائط کے ساتھ ساتھ جرمن متوسط طبقے میں کمیونسٹ قبضے کے خوف کے نتیجے میں پھیلنے والی سماجی اور معاشی بدامنی کے حوالے سے درپیش مشکلات ویمار جرمنی میں متعدد پارٹیوں پر مشتمل جمہوری حلوں کی اہمیت ختم کرنے میں سازگار رہیں۔ اس سے عوام میں آمریت کا بھی جذبہ ابھرنے لگا، جو بدقسمتی سے جرمن ووٹروں کو ایڈولف ہٹلر اور اس کی قومی سوشلسٹ پارٹی میں نظر آیا۔ مشرقی یورپ میں اسی طرح کی صورت حال قدامت پسند آمریت کے لئے سازگار رہی۔ اس کی شروعات پہلی جنگ عظیم ہارنے والوں سے ہوئی، اور آخرکار علاقے بھر میں پرتشدد سام دشمنی اور قومی اقلیتوں کے خلاف امتیاز کے حوالے سے برداشت اور قبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔

آخرکار پہلی جنگ عظیم کے دوران پیش ہونے والی تباہی اور جانی نقصان کی وجہ سے کئی سابقہ جنگجو قوموں میں ثفافتی مایوسی پھیلنے لگی۔ چار سالہ تباہ کن تصادم کے اثرات دیکھنے والے عوام میں بین الاقوامی اور قومی سیاست سے مایوسی چھانے لگی اور سیاسی سربراہان اور حکومتی افسران پر اعتبار ختم ہونے لگا۔ کئی یورپی ممالک میں نوجوان مردوں کی ایک نسل ختم ہوگئی۔ جرمن مصنف ارنسٹ جنگر جیسے ادیبوں نے جنگ کے 1920 میں لکھنے جانے والے Storm of Steel (Stahlgewittern) میں جنگ کے تشدد اور تصادم کے قومی سیاق و سباق کو کافی شاندار بنا کر پیش کیا، لیکن اریخ ماریہ ریمارق کی 1929 میں لکھی جانے والی All Quiet on the Western Front (Im Westen nichts Neues) میں خندقی جنگجوئی کی جان دار اور حقائق پر مبنی داستان نے خدمات انجام دینے والی افواج کے تجربوں کے ساتھ ساتھ، "کھوئی ہوئی نسل" کی علیحدگی کی بھی داستان سنائی جو جنگ سے واپسی کے بعد امن کے حالات میں اپنے آپ کو ڈھالنے سے قاصر رہے، اور جنہیں گھر پر رہنے والی عوام نہ سمجھ سکی جس نے اپنی آنکھوں سے جنگ کے خوف ناک مناظر نہيں دیکھے تھے۔

کچھ حلقوں میں سیاست اور تصادم سے مایوسی اور علیحدگی امن پسند جذبات میں اضافے کا باعث بننے لگی۔ ریاستہائے متحدہ میں رائے عامہ علیحدگی پر واپسی کو ترجیح دینے لگی؛ یہ رائے امریکی سینیٹ کے ورسیلز کے معاہدے کی توثیق سے انکار اور صدر ولسن کے خود تجویز کردہ لیگ آف نیشن میں امریکی شمولیت کی اہم وجہ تھی۔ جرمنوں کی ایک نسل کے لئے، اس سماجی علیحدگی اور سیاسی مایوسی کا تذکرہ جرمن مصنف ہینس فلییڈا کی Little Man, What Now? (Kleiner Mann, was nun?) میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک جرمن "عام آدمی" کی کہانی ہے، جو مالی بحران اور بے روزگاری کی پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے، اور جس کا بنیاد پرست قدامت پسندوں اور جدت پسندوں کی پکار سننے کا امکان مساوی ہے۔ فیلیڈا نے اپنے 1932 میں لکھے جانے والے ناول میں اس وقت کے جرمنی کے بارے میں بالکل صحیح لکھا ہے: یہ مالی اور سماجی انحطاط میں گھرا ہوا ملک تھا جس میں سیاسی میدان کے دونوں طرف انتہا پسند موجود تھے۔ اس بدامنی کی کئی وجوہات کی جڑیں پہلی جنگ عظیم اور اس کے نتائج میں پائی جاسکتی تھیں، اور جرمنی نے جو راستہ اپنایا وہ آئندہ کئی برسوں میں اس سے بھی زیادہ تباہ کن جنگ کی جانب لے جانا والا تھا۔