ابتدائی سال اور پہلی جنگِ عظیم

سومے کی لڑائی کے دوران ایک منظر

ایڈولف ہٹلر (1889-1945) 20 اپریل 1889 کو آسٹریا کے شمالی سرحدی قصبے برونو ایم اِن (Braunau am Inn) میں پیدا ہوا۔ 1898 میں ہٹلر کا خاندان شمالی آسٹریا کے دارالحکومت لنز (Linz) چلا آیا۔ بصری فنون میں کیرئیربنانے کی خواہش رکھتے ہوئے ہٹلر کا اپنے والد کے ساتھ شدید اختلاف ہوا جو اسے ہابسبرگ سول سروس میں داخل کروانا چاہتے تھے۔

 میونخ جانے سے قبل ہٹلر فروری 1908 اور مئی 1913 کے دوران ویانا میں سکونت پذیر رہا۔ وہاں اس نے کچھ وقت گزارا اور آبی رنگوں کی پینٹنگز اور خاکے بنا کر گزر اوقات کرتا رہا یہاں تک کہ پہلی جنگ عظیم نے اس کی زندگی کو نئی جہت دے دی۔ وہ فوج میں چلا گیا۔ جنگ کے دوران (1916 اور 1918 میں) وہ دو مرتبہ زخمی ہوا اور اسے متعدد میڈلز سے نوازا گیا۔

اکتوبر 1918 میں بیلجیم میں یپرس (Ypres) کے نزدیک مسٹرڈ گیس کے ایک حملے میں بینائی سے جزوی طور پر محروم ہونے کے بعد ہٹلر کو پیسواک (Pasewalk) کے ایک فوجی ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ 11 نومبر 1918 کی عارضی جنگ بندی کی خبر وہاں اس تک پہنچی جہاں وہ زیرِ علاج تھا۔ نومبر 1918 میں ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد ہٹلر میونخ واپس آ گیا۔

 1919 میں وہ بوارئین ملٹری انتظامیہ کے معلوماتی دفتر سے منسلک ہو گیا۔ یہ دفتر سویلین سیاسی پارٹیوں کی معلومات جمع کرتا تھا اور فوجیوں کے لئے کمیونسٹ مخالف "سیاسی تعلیم" فراہم کرتا تھا۔ اگست 1919 میں ایک کورس انسٹرکٹرکے طور پر ہٹلر نے اپنی ابتدائی زہر آلود یہود دشمن تقریریں کیں۔ ایک ماہ بعد اس نے اپنے اولین یہود دشمن نسل پرست خیالات کا اظہار صفحۂ قرطاس پر کیا جس میں جرمنی سے یہودیوں کے انخلا کی وکالت کی گئی تھی۔

نازی جماعت کا رہنما

ہٹلر نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لی جو اکتوبر 1919 میں نازی پارٹی بن گئی۔ اس نے 1920 میں پارٹی کے سیاسی پروگرام کو تشکیل دینے میں مدد کی۔ اس پروگرام کی بنیاد نسل پرست یہود دشمنی، توسیع پسند قوم پرستی، اور تارکینِ وطن مخالف عداوت پر قائم تھی۔ 1921 تک وہ نازی پارٹی کا طاقتورFührer (لیڈر) بن چکا تھا۔ نازی پارٹی کی رکنیت دو سالوں میں 55000 تک بڑھ گئی، جنہیں پارلیمانی SA (Sturmabteilung؛ جرمن ملیشیا) میں 4000 اشخاص سے زائد کی معاونت حاصل تھی۔

 قید و بند

وائیمار انتخابات میں سیاسی شمولیت کو مسترد کرتے ہوئے ہٹلر اور نازی پارٹی کی قیادت نے وائیمار ریپبلک میں ایک ریاست، بواریا کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہا۔ 9 نومبر 1923 کو بئیر ہال پوش (بئیر ہال انقلاب) رونما ہوا۔ انقلاب کے ناکام ہونے کے بعد میونخ کی ایک عدالت نے ہٹلر اور دیگر باغی سرداروں پر انتہائی غداری کے الزامات پر مقدمہ چلایا۔ ہٹلر نے مقدمے کو ایک سٹیج کے طور پر استعمال کیا تاکہ پارلیمانی جمہوریت کے نظام پر حملہ کیا جائے اور غیر ملکیوں سے بیزار قوم پرستی کو پروان چڑھایا جائے۔ ہٹلر پر الزام ثابت ہوگیا تھا، لیکن اس کو معمولی سزا ملی اور وہ محض ایک سال زیرِ حراست رہنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ اس نے جیل میں اپنے وقت کو اپنی آپ بیتی مائین کیمپف (میری جدوجہد) لکھنے کا آغاز کرنے میں استعمال کیا جو 1926 میں شائع ہوئی۔ کتاب میں اس نے بڑی وضاحت سے انسانی تاریخ کا نسلی امتیاز پر مبنی ایک قوم پرست، سماجی ڈارونسٹ، اور یہود دشمن نظریہ پیش کیا تھا۔ اس نے اندرونی آمریت، فوجی توسیع، اور مشرق میں "رہائشی علاقہ " (Lebensraum) ضبط کرنے کی وکالت کی۔ رہائش کی یہ جگہ وہ تھی جہاں جرمن مشرق میں مقامی اور "کمتر" آبادیوں کا صفایا کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

سیاسی حکمت عملی

ہٹلر کی تشہیری تقریر

جیل سے اپنی رہائی کے بعد ہٹلر نے نازی پارٹی کی تنظیم نو کی اور اسے دوبارہ متحد کیا۔ اس نے اپنی سیاسی حکمتِ عملی کو تبدیل کیا تاکہ انتخابی سیاست، نئے اور معاشرے سے لاتعلق ووٹرز کو ہدف بنانے والے پروگراموں اور جرمن معاشرے میں روایتی اختلافات کو ختم کرنے کے لئے راہیں ہموار کرنے میں شمولیت پر کاربند رہا جائے۔

ممکنہ ووٹرز کے خوف اور امیدوں کی عکاسی کرنے کے لئے مزین زبان استعمال کرتے ہوئے نازیوں نے مندرجہ ذیل مقاصد کیلئے مہم چلائی:

  • قومی دفاعی صلاحیت کی تجدید نو
  • قومی خود مختاری کو بحال کرنا
  • کمیونزم کا خاتمہ
  • ورسیلز معاہدے کو کالعدم قرار دینا
  • جرمنی میں غیر ملکی اور یہودی سیاسی اور ثقافتی اثر کو زائل کرنا اور اخلاقی گراوٹ کو تبدیل کرنا جو مبینہ طور پر تخلیق کی گئی تھی
  • اقتصادی ترقی پیدا کرنا اور ملازمتیں فراہم کرنا

اس حکمتِ عملی کو 1928 میں قومی پارلیمانی انتخابات میں آزماتے ہوئے نازیوں نے مایوس کن تعداد میں ووٹ حاصل کیے جو 2.6 فیصد رہے۔

 1930میں عالمی معاشی انحطاط کا آغاز ہوتے ہی جرمن عوام پر نازی تخریب کاریوں کے اثرات بڑھنا شروع ہوگئے۔ جب مارچ میں اکثریتی اتحاد کی حکومت ناکام ہوگئی تو متوسط طبقے کی تین جماعتوں نے ہنگامی طور پر آئینی شرائط پیش کیں تاکہ غیر معمولی پارلیمانی انتخابات منعقد کروائے جائیں جس میں انہیں امید تھی کہ ایسی حکومتی اکثریت قائم کی جا سکتی ہے جو سوشل ڈیموکریٹس اور سیاسی بائیں بازو کے حامیوں کو حکومت کرنے سے خارج کر دے گی۔ جب یہ کوشش ناکام ہوگئی تو 1930-1932 میں جرمن حکومتیں پارلیمانی منظوری کی بجائے صدارتی حکم کے ذریعے اقتدار میں بحال ہو گئیں۔ 

انتخابی کامیابیاں

نازیوں نے 1930 میں جدید ٹکنالوجی ، جدید سیاسی مارکیٹ کی تحقیق، اور تشدد کے ذریعے دھمکیوں کو ملا کر اپنی انتخابی پیشرفت کی۔ تاہم قیادت دھمکیوں کی سیاست کی ذمہ داری سے انکار کرتی رہی۔ جمہوری حکومتوں کے ساتھ ماضی کی وابستگی کی وجہ سے پارٹی کی بھرپور توانائی نے انہیں انتخابی رکاوٹوں کو توڑنے میں بھی مدد فراہم کی۔ انہوں نے نئے، بیروزگار اور الگ کر دیے گئے ووٹروں کو راغب کرتے ہوئے 20 فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کر لیے۔

ہٹلر ایک طاقت ور اور جادو بکھیرنے والا مقرر تھا، جس نے تبدیلی کے خواہاں جرمنوں کی بڑی حمایت کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ 1931 اور 1932 میں آہستہ آہستہ نازیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، جس نے یہ احساس پیدا کیا کہ ہٹلر کا اقتدار میں آنا ناگذیر ہے اور وہ ملک کو سیاسی جمود، اقتصادی بحران، ثقافتی انحطاط، اور کمیونزم سے نجات دلائے گا۔ 1932 کے موسمِ بہار میں جمہوریہ کے صدر کے لئے امیدوار ہونے کے بعد ہٹلر اور نازیوں نے جولائی 1932 کے انتخابات میں ووٹوں کا 37.3 فیصد حاصل کیا۔ وہ جرمنی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئے۔ سیاسی محرکات پر مبنی سماجی تشدد کے ساتھ 1930 کے بعد انتخابات میں مسلسل حصہ لیتے ہوئے 1932 میں نازی پارٹی کی رکنیت 450,000 تک بڑھ گئی۔ SA نے 400,000 سے زیادہ اور SS نے 50,000 سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔

جرمنی کا چانسلر

ہٹلر کے چانسلر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد کائزرھوف ہوٹل سے نکلنے پر جرمن لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔

نومبر 1932 کے پارلیمانی انتخابات میں نازیوں کے ووٹ کم ہو کر 33.1 فیصد پر آ گئے۔ اس کمی سے ہٹلر کی مقبولیت ماند پڑ گئی اور نازی پارٹی میں ایک سیاسی اور مالی بحران پیدا ہوگیا۔ سابق چانسلر (جون- نومبر 1932) فرانز وان پاپن نے ہٹلر کو نجات دلائی۔ وان پاپن کو یقین تھا کہ  نازیوں کی انتخابی نقصان نے انہیں زیادہ تجربہ کار لیکن غیر مقبول قدامت پسند اشرافیہ کے ذریعہ قابو پانے کے لئے زیادہ حساس بنایا۔ بطور چانسلر ہٹلر کے ساتھ ایک نازی-جرمن قومیت پسند اتحاد بنانے کا خطرہ مول لیتے ہوئے وون پاپن نے جنوری 1933 کے اوائل میں ہٹلر اور جرمن قومیت پسندوں کے ساتھ ایک معاہدہ طے کر لیا۔ اس نے صدر پال وان ہنڈربرگ کو باور کروایا کہ جرمنی کے پاس اور کوئی راستہ باقی نہیں ہے۔ وان ہنڈنبرگ نے قدرے تامل کے ساتھ  30 جنوری 1933 کو ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر بنا دیا۔

اپنے چانسلر نامزد ہونے کے بعد ایڈولف ہٹلر نے نازی ریاست کی بنیاد رکھنے کا آغاز کیا۔ اس نے جرمنی کو ایک پارٹی کی آمریت میں بدلنے کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھایا۔

جرمن صدر پال وان ہنڈربرگ اگست 1934 میں وفات پا گئے۔ ہٹلر نے 30 جون 1934 کو روہم (Röhm) یعنی مخالفین کا صفایا کرتے ہوئے فوج کی حمایت حاصل کرلی۔ اس نے صدارت کو ختم کر دیا اور خود کو جرمن لوگوں (Volk) کا فیوہرر (عظیم لیڈر) قرار دیا۔ تمام فوجی عملے اور تمام سرکاری ملازمین نے ہٹلر کے ساتھ فیوہرر کے طور پر وفاداری کا ایک نیا حلف اٹھا لیا۔ ہٹلر نے رائخ چانسلر (حکومت کا سربراہ) ہونے کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔