پولینڈ پر حملہ، موسمِ خزاں سن 1939
جنگِ عظیم دوم کی شروعات کرتے ہوئے جرمن فوجیوں نے یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ جرمن جارحیت کے ردعمل میں برطانیہ عظمٰی اور فرانس نے نازی جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔
اہم حقائق
-
1
نازی جرمنی کو پولینڈ پر زبردست فوجی برتری حاصل تھی۔ پولینڈ پر حملے نے جرمنی کی فضائی طاقت اور دفاعی آلات کو ایک نئی قسم کی متحرک جنگ میں یکجا کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔
-
2
17 ستمبر، 1939 کو سوویت یونین نے پولینڈ کی قسمت پر مہر ثبت کرتے ہوئے مشرقی پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ آخری فعال پولش یونٹ نے 6 اکتوبر کو ہتھیار ڈال دیے۔
-
3
پولینڈ کی اکتوبر 1939 کے اوائل میں شکست کے بعد نازی جرمنی اور سوویت یونین نے جرمن۔ سوویت عدم جارحیت کے معاہدے کی خفیہ شرائط کے مطابق ملک کو تقسیم کر دیا۔
ہٹلر کا پولینڈ کے ساتھ عدم جارحیت کا معاہدہ
1933 میں اقتدار میں آنے کے بعد ایڈولف ہٹلر کی خارجہ پالیسی کے پہلے بڑے اقدامات میں سے ایک جنوری 1934 میں پولینڈ کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدہ پر دستخط کرنا تھا۔ یہ اقدام ہٹلر کے حمایتی متعدد جرمن لوگوں میں غیر مقبول تھا لیکن انہوں نے اس حقیقت پر خفگی ظاہر کی کہ پولینڈ نے معاہدہ ورسائے کے تحت پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی پروشیا، پوزنان (Poznań) اور اپر سائلیسیا کے سابق جرمن صوبے حاصل کر لیے تھے۔ تاہم، جنگِ عظیم کے نتیجے میں جرمنی کو دوبارہ مسلح ہونے کا موقع ملنے سے پہلے ہٹلر نے جرمنی کے خلاف فرانسیسی پولش فوجی اتحاد کے امکان کو بے اثر کرنے کے لیے عدم جارحیت کا معاہدہ کرنے کی کوشش کی۔
یورپ میں مفاہمت
1930 کے وسط اور آخر میں فرانس اور خاص کر برطانیہ عظمٰی نے مفاہمت کی خارجہ پالیسی کی پیروی کی۔ درحقیقت مفاہمت کی پالیسی برطانوی وزیراعظم نیویل چیمبرلین سے کافی زیادہ وابستہ تھی۔ اس پالیسی کا مقصد جرمن مطالبات پر محدود رعایتیں دے کر یورپ میں امن و امان قائم کرنا تھا۔ برطانیہ میں رائے عامہ معاہدہ ورسائے کی علاقائی اور فوجی دفعات میں کچھ ترامیم کرنے کے حق میں تھی۔ مزید یہ کہ نہ برطانیہ اور نہ ہی فرانس نے نازی جرمنی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے خود کو عسکری طور پر تیار محسوس کیا۔
برطانیہ اور فرانس بنیادی طور پر راضی ہو گئے کیونکہ نازی جرمنی نے
- اپنی افواج پر معاہدہ ورسائے کی حدود کو منسوخ کر دیا (1935)؛
- رائنلینڈ میں دوبارہ مسلح افواج تعینات کیں (1936)؛
- اور آسٹریا سے الحاق کیا (مارچ 1938)۔
ہٹلر کی چیکوسلواکیہ کے خلاف جنگ چھیڑنے کی دھمکی کے ردعمل میں برطانوی اور فرانسیسی رہنماؤں نے ستمبر 1938 میں میونخ معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے نے ہٹلر کے مستقبل کے تمام تنازعات پُرامن طریقے سے حل کرنے کے وعدے کے بدلے میں چیک سرحدی علاقے کو جسے سوڈیٹن لینڈ کہا جاتا ہے جرمنی کے حوالے کر دیا گیا۔
ہٹلر کے میونخ میں وعدے اور اینگلو فرنچ کی چیکوسلواکیہ کے دفاع کی ضمانت کے باوجود جرمنوں نے مارچ 1939 میں چیکوسلواک ریاست کے ٹکڑے کر دیے۔ برطانیہ اور فرانس نے پولش ریاست کی سالمیت کی ضمانت دیتے ہوئے ردعمل کیا۔ یہ ردعمل ہٹلر کو روک نہ سکا جس نے دھمکیوں یا رعایتوں کے ذریعے جنگ سے باز نہ آنے کی ٹھان رکھی تھی۔ 28 اپریل، 1939 کو اس نے پانچ سال پہلے ہی پولینڈ کے ساتھ دستخط کردہ عدم جارحیت کے معاہدے سے جرمنی کی دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ ہٹلر نے اگست 1939 میں سوویت یونین کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدے پر گفت و شنید شروع کی۔ جرمن سوویت معاہدے نے، جسے پولینڈ کو دو طاقتوں کے مابین تقسیم کرنے کے لیے خفیہ طور پر فراہم کیا گیا تھا، جرمنی کو سوویت یونین کی مداخلت کے خوف کے بغیر پولینڈ پر حملہ کرنے کے قابل بنایا۔
پولینڈ پر حملہ اور اس کی تقسیم
یکم ستمبر، 1939 کو جرمن افواج نے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ اس کارروائی کا جواز پیش کرنے کے لیے نازی پروپیگنڈہ کرنے والوں نے پولینڈ پر پولینڈ میں مقیم نسلی جرمنوں کو ستانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے یہ بھی جھوٹا دعویٰ کیا کہ پولینڈ اپنے اتحادیوں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر جرمنی کو گھیرے میں لینے اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ایس ایس نے جرمن فوج کے ساتھ ملی بھگت کر کے ایک جرمن ریڈیو اسٹیشن پر جعلی حملہ کیا۔ جرمنوں نے پولش لوگوں پر اس حملے کا جھوٹا الزام لگایا۔ اس کے بعد ہٹلر نے اس کارروائی کو پولینڈ کے خلاف "جوابی" مہم شروع کرنے کے لیے استعمال کیا۔
جرمنی نے یکم ستمبر، 1939 کو صبح سویرے اچانک حملہ کر دیا جس میں 2,000 سے زائد ٹینکوں پر مشتمل ایک پیش قدمی کرنے والی فورس تھی جس کی معاونت کے لیے تقریباً 900 بمبار اور 400 سے زائد لڑاکا طیارے موجود تھے۔ مجموعی طور پر جرمنی نے حملے میں 60 ڈویژنز اور تقریباً 1.5 ملین افراد تعینات کیے تھے۔ شمال میں مشرقی پروشیا اور جرمنی، اور جنوب میں سائلیسیا اور سلوواکیہ سے جرمن یونٹوں نے سرحد کے ساتھ پولش دفاع کو تیزی سے توڑ دیا اور ایک بڑے محاصرے میں لینے کے حملے کے ساتھ وارسا کی جانب پیش قدمی کی۔
پولینڈ افواج دیر سے متحرک ہوئیں اور سیاسی غوروفکر نے اس کی فوج کو ایک ناموافق تعیناتی پر مجبور کیا۔ پولینڈ افواج کے پاس جدید ہتھیاروں اور آلات کی بھی کمی تھی۔ اس کے پاس چند بکتر بند اور موٹر گاڑیوں والی یونٹس تھیں، اور 300 سے کچھ زائد طیارے تعینات کر سکے تھے۔ ان میں سے بیشتر کو لوفٹ وافے (جرمن ایئر فورس) نے حملے کے پہلے چند دنوں میں تباہ کر دیا تھا۔ جانثاری سے لڑنے اور جرمنوں کو شدید جانی نقصان پہنچانے کے باوجود، پولینڈ کی فوج کو ہفتوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمنی کی کامیاب جنگی تدبیر کو بیان کرنے کے لیے دنیا نے ایک نئی اصطلاح اپنائی:Blitzkrieg، یا "لائٹننگ وار۔"یہ حربہ زبردست فضائی طاقت کی معاونت سے تیزی سے پیش قدمی کرتی ہوئی بکتر بند یونٹس کی بڑے پیمانے پر مرتکز افواج کے ساتھ اچانک حملہ کرنے پر مشتمل تھا۔
برطانیہ اور فرانس پولینڈ کی سرحد کی ضمانت پر قائم رہے اور 3 ستمبر، 1939 کو جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ تاہم، جب سوویت یونین نے 17 ستمبر کو مشرق سے پولینڈ پر حملہ کیا تو پولینڈ نے خود کو دو محاذ پر جنگ لڑتے ہوئے پایا۔ پولینڈ کی حکومت اسی دن ملک سے فرار ہو گئی۔
شدید گولہ باری اور بمباری کے بعد وارسا نے 27 ستمبر 1939 کو جرمنوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
ان کے عدم جارحیت کے معاہدے کی خفیہ شرط کے مطابق جرمنی اور سوویت یونین نے 29 ستمبر 1939 کو پولینڈ کو تقسیم کر دیا۔ حد بندی کی لکیر دریائے بگ کے ساتھ ساتھ کھینچی گئی۔
پولش یونٹس کی آخری مزاحمت 6 اکتوبر کو ختم ہو گئی۔
پولینڈ پر جرمن افواج کا قبضہ
اکتوبر، 1939 میں جرمنی نے مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ اِن سابق پولش علاقوں کو براہ راست اپنے ساتھ ملا لیا: ویسٹ پروشیا، پوزنان (Poznań)، اپر سائلیسیا، اور سابقہ فری سٹی آف ڈینزگ۔جرمنی کے زیرِ قبضہ پولینڈ کے باقی حصوں۔۔۔ بشمول وارسا، کراکاؤ (Kraków)، راڈوم، اور لوبلن شہر۔۔۔ کو نام نہاد جنرل گورنمنٹ (جنرل گورنمنٹ کے طور پر۔۔۔ ایک سویلین گورنر جنرل نازی پارٹی کے وکیل ہینس فرینک کے تحت منظم کیا گیا تھا۔
نازی جرمنی نے پولینڈ کے باقی حصوں پر تسلط قائم کر لیا جب اس نے جون 1941 میں سوویت یونین پر حملہ کیا۔ پولینڈ جنوری 1945 کے آخر تک جرمن افواج کے قبضے میں رہا۔