ہدف بننے والے پولش لوگ
پولینڈ کی فوج کو ستمبر 1939 میں شکست دینے کے بعد جرمنوں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہوئے پولینڈ کے ہزاروں افراد کو مار ڈالا، جبری مشقت کے بڑے پروگرام وضح کیے اور لاکھوں افراد کو جلاوطن کر دیا۔
اہم حقائق
-
1
جرمن پالیسی کا مقصد پولش قوم اور اس کی ثقافت کو تباہ کرنا تھا اور پولش کسانوں اور مزدوروں کا بے دردی سے استحصال کرنا تھا۔
-
2
جرمنوں نے پولینڈ کے ہر قسم کے ہزاروں سویلین لیڈروں کو ہلاک کر دیا۔ ان کے علاوہ بہت سے لوگوں کو حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔
-
3
نسلی جرمنوں کی بہت بڑی تعداد کو پولینڈ کے ان علاقوں میں آباد کیا گیا جو وسیع پیمانے پر پولینڈ کے مقامی لوگوں کی جبری جلاوطنیوں کے بعد خالی ہو گئے تھے۔
پولینڈ پر جرمن قبضہ انتہائی سفاکانہ تھا۔
نازی پولش لوگوں کو نسلی طور پر گھٹیا سمجھتے تھے۔ جرمنی سے فوجی شکست کے بعد ستمبر 1939 میں جرمنوں نے دہشت کی ایک کیمپین شرع کر دی جس کا مقصد پولش قوم اور اس کی ثقافت کو تباہ کرنا اور پولینڈ کی قوم کو کسی لیڈر سے محروم ایسے کسانوں اور مزدوروں کی آبادی میں تبدیل کرنا تھا جو جرمن آقاؤں کیلئے کام کریں۔
پولینڈ پر جرمن حملے کے بعد کے ہفتوں کے دوران جرمن ایس ایس، پولیس اور فوجی یونٹوں نے ہزاروں پولش افراد کو گولی مار کر قتل کر دیا جن میں پولینڈ کی اشرافیہ، مذہبی شخصیات اور دانشور بھی شامل تھے۔ 1940 کے موسم بہار کے دوران جرمن قابض حکام نے ایب ایکشن کے نام سے ایک منصوبہ شروع کیا جس کا مقصد ایسے پولش لوگوں کو منظم انداز میں ختم کرنا تھا جو ’’لیڈر طبقے‘‘ سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں جرمن حکام کی کوشش تھی کہ ان تمام پولش افراد کو ختم کر دیا جائے جو جرمن تسلط کے خلاف مزاحمت شروع کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ ان کا یہ بھی مقصد تھا کہ ان کو اس قدر خوفزدہ کر دیا جائے کہ وہ مکمل طور پر جرمنوں کے آگے سر جھکا دیں۔ جرمنوں نے ہزاروں اساتذہ، پادریوں اور دیگر دانشوروں کا قتل عام کیا۔ نازی اہلکاروں نے مذید ہزاروں افراد کو جرمنی میں نئے تعمیر شدہ آشوٹز، شٹٹ ھاف اور دیگر حراستی کیمپوں میں بھجوا دیا جہاں غیر یہودی پولش لوگوں کی اکثریت تھی جنہیں وہاں مارچ 1942 تک رکھا گیا۔
پولینڈ کو ’’جرمن بنانا‘‘: ہٹلر پولینڈ کی آبادی کو جرمن نوآبادی میں تبدیل کر کے پولینڈ کو جرمن بنانا چاہتا تھا۔ صرف اتنے ہی پولش افراد کو وہاں رہنے دیا گیا جن کی مزدوری کیلئے ضرورت تھی۔ باقی لوگوں کو گاڑیوں میں لیجا کر مار ڈالا گیا۔ پہلے قدم کے طور پر وارتھیگاؤ میں آرتھر گریزر اور ڈینزگ۔ مغربی پرشیا میں ایلبرٹ فارسٹر جیسے مقبوضہ علاقوں کے گورنرز نے لاکھوں پولش افراد کو جنرل گورنمنٹ میں جلاوطن کر دیا۔ اس کے بعد ان علاقوں میں 500,000 سے زائد نسلی جرمنوں کو آباد کیا گیا۔ 43-1942 میں ایس ایس اور پولیس کے یونٹوں نے جنرل گورنمنٹ کے زاموسک علاقے کو جرمن بنانے کے اقدامات شروع کر دیے اور اس دوران 30,000بچوں سمیت ایک لاکھ پولش سویلین افراد کو جبراً وہاں سے منتقل کر دیا۔ خاندان تقسیم ہو کر رہ گئے، بہت سے لوگوں کو حراستی کیمپوں یا جبری مزدوری کے مراکز میں بھیج دیا گیا اور 4,000 سے زائد بچوں کو جرمن بنانے کیلئے موذوں قرار دیتے ہوئے رائخ بھیج دیا گیا۔ مجموعی طور پر کم سے کم 20,000 پولش بچوں کو ان کے خاندانوں سے الگ کر کے رائخ بھیج دیا گیا اور انہیں جرمن بنانے کی پالیسی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
جب تک جنگ جاری رہی، جرمنوں کو پولش لیبر کی ضرورت رہی۔ نازی اہلکاروں نے صحت مند جسم رکھنے والے تمام پولش افراد کیلئے مزدوری کو لازمی قرار دے دیا جن میں 12 سال تک کی عمر کے بچے بھی شامل تھے۔ جرمن اہلکار خود فیصلہ کرتے تھے کہ کہاں اور کیسے پولش افراد کی مزدوری کی ضرورت ہو گی اور وہ انہیں رائخ میں مزدوری کیلئے بھرتی کر لیتے تھے۔ پولیس پولش لوگوں کو سڑکوں، ٹرینوں، مارکیٹوں اور گرجا گھروں سے پکڑ لیتی یا پھر دیہات اور محلوں میں چھاپے مار کر انہیں پکڑتی اور مزدوری کیلئے بھرتی کر لیتی۔ جو پولش افراد جبری مزدوری سے بھاگنے کی کوشش کرتے، جرمن اہلکار انہیں پکڑ کر حراستی کیمپوں میں بھجوا دیتے اور ان کے خاندانوں کو سزا دیتے۔ 1939 سے 1945 کے درمیان کم سے کم 15 لاکھ پولش افراد کو جبری مزدوری کیلئے جرمن علاقوں میں جلاوطن کیا گیا۔ لاکھوں پولش لوگوں کو نازی حراستی کیمپوں میں بھی قید کر دیا گیا۔
والیس وٹکوسکی غیر یہودی پولینڈ میں مشکل حالات زندگی بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں
ہم یقیناً ایک ایسے وقت میں زندہ بچ گئے جب 14سال سے زیادہ عمر کے ہر صحتمند شخص کو ہفتے میں 6 دن 10گھنٹے روزانہ مزدوری کرنا پڑتی تھی۔ بصورت دیگر ہمیں جرمنی میں جبری مشقت کے کیمپوں یا اسلحہ ساز فیکٹریوں میں کام کرنے کیلئے بھیج دیا جاتا۔
مزاحمتی اقدامات کے جواب میں نازی اہلکار بلا تخصیص جوابی کارروائیاں کرتے۔ وہ جرمنوں پر کیے جانے والے حملوں کے جواب میں وسیع پیمانے پر گرفتاریاں کرنا اور لوگوں کو مارنا شروع کر دیتے اور سولیین لوگوں کو مسلسل مزاحمتی کارروائیوں کے جوابی اقدامات کے طور پر یرغمال رکھتے تھے اور انہیں مار ڈالتے تھے۔ حمایتی تحریکوں کے علاقوں میں ’’مصالحانہ‘‘ کارروائیوں میں اکثر سویلین افراد کی وسیع پیمانے پر علاقے سے باہر بھیج دیا جاتا جن میں سے بیشتر کو حراستی کیمپوں میں بھیجا جاتا۔
فرانس میں ولادی سلو سیکوسکی کی سربراہی میں پولینڈ کی جلاوطن حکومت تشکیل دی گئی اور فرانس پر قبضے کے بعد یہ انگلینڈ منتقل ہو گئی۔ پولینڈ کی سرزمین پر اس کی نمائندگی زیر زمین تنظیم ’’ڈیلیگاٹورا‘‘ (آرمیہ کراجووا) کر رہی تھی جس کے فرائض میں سے ایک پولش ہوم آرمی کی کارروائیوں کو مربوط بنانا تھا۔ پولش مزاحمتی تنظیم نے اگست 1944 میں وارسا میں جرمنوں کے خلاف پر تشدد بغاوت کی۔ یہ بغاوت دو ماہ تک جاری رہی۔ تاہم بالآخر جرمنوں نے اسے کچل دیا۔ اس بغاوت میں دو لاکھ سے زیادہ پولش افراد ہلاک ہو گئے۔
افراد کی گنتی کرنا
ان لوگوں کی گنتی کرنا جو نازی پالیسیوں کے وجہ سے ہلاک ہوئے، مشکل کام ہے۔ انداذہ ہے کہ جرمنوں نے 18 سے 19لاکھ غیر یہودی پولش افراد کو دوسری جنگ عظیم کے دوران قتل کیا۔ اس کے علاوہ جرمنوں نے پولینڈ کے 30لاکھ کے لگ بھگ یہودیوں کو ہلاک کیا۔