نومبر 1941 میں جرمن حکام نے جنوب مشرقی مقبوضہ پولینڈ کے ایک سابق لیبر کیمپ کے مقام پر ایک قتل گاہ کی تعمیر شروع کی۔ اس دوسرے جرمن قتل کے مرکز بیلزیک نے 17 مارچ 1942 کو کام شروع کر دیا۔ مارچ اور دسمبر 1942 کے دوران جرمنوں نے جنوبی پولینڈ کے ایک گھیٹو (یہودی بستی) سے 4 لاکھ 34 ھزار 5 سو یہودیوں اور پولینڈ کے مسیحی افراد اور روما (خانہ بدوشوں) کی نامعلوم تعداد کو بیلزیک جلاوطن کیا جہاں اُنہیں قتل کر دیا گیا۔ ان میں بیشتر تعداد اُن یہودیوں کی تھی جنہیں جنوبی پولینڈ سے لایا گیا تھا۔ جرمنوں نے جرمن، آسٹرین اور چیک یہودیوں کو بھی بیلزیک منتقل کیا۔

قتل کے مرکز کے حکام میں جرمن ایس ایس اہلکاروں کی ایک مختصر تعداد کے علاوہ پولیس اہلکار اور ایک ذیلی پولیس گارڈ شامل تھی جو سابق سوویت جنگی قیدیوں اور یوکرینین اور پولش شہریوں پر مشتمل تھی۔ ایک تنگ راستہ جسے "ٹیوب" کہا جاتا تھا، قتل مرکز کے دونوں حصوں کو آپس میں ملاتا تھا۔ وہ جگہ جہاں قتل عام کی کارروائی کی گئی، اس میں گیس چیمبر اور تدفین کی خندقیں شامل تھیں۔ مرکز کے اندر ہونے والی کارروائیوں کو باہر کے لوگوں سے پوشیدہ رکھنے کی خاطر اردگرد درختوں کے تنے ایستادہ تھے جن کے گرد خاردار تاروں کی فینس تھی۔ ان کے پیچھے درختوں کے جھنڈ تھے۔

چالیس سے ساٹھ مال بردار بوگیوں پر مشتمل ریل گاڑیاں بیلزیک ریلوے اسٹیشن پہنچتی تھیں جن میں سے ہر ڈبے میں 80 سے 100 افراد ٹھونسے جاتے تھے۔ ایک وقت میں بیس مال بردار ڈبے کیمپ میں لائے جاتے تھے۔ وہاں پہنچنے والے یہودیوں کو اترنے کو کہا جاتا۔ جرمن ایس ایس اور پولیس اہلکار اعلان کرتے کہ جلاوطن ہونے والے یہودی عبوری کیمپ میں پہنچ گئے ہیں اور اب اُنہیں اپنی تمام قیمتی اشیاء اُن کے حوالے کرنی ہوں گی۔ یہودیوں کو برہنہ ہونے اور ٹیوب سے گذرنے پر مجبور کیا جاتا جہاں سے وہ براہ راست گیس چیمبروں میں پہنچ جاتے۔ انہیں دھوکے سے غسل خانوں کا نام دیا جاتا۔ ایک دفعہ جب دروازے مقفل کر دئے جاتے تو گیس چیمبروں کے اندر کاربن مونو آکسائیڈ چھوڑ دی جاتی جس سے تمام افراد ہلاک ہو جاتے۔ یہی کارروائی پھر بعد میں پہنچنے والے مال گاڑی کے بیس ڈبوں کے ذریعے پہنچے والے یہودی مرد، عورتوں اور بچوں کے ساتھ دہرائی جاتی۔

ایسے قیدیوں کے گروپ جو جبری مشقت کیلئے زندہ رکھے جاتے، وہ گیس چیمبروں سے لاشوں کو نکال کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیتے۔ دیگر قیدیوں کو مرنے والوں کے سامان کی چھانٹی کرنے اور اگلی ترسیل کیلئے مال بردار ریل کے ڈبوؓ کو صاف کرنے پر مجبور کیا جاتا۔ کیمپ کے اہلکار متواتر ان جبری قیدیوں کو بھی ہلاک کرتے رہے اور اُن کی جگہ نئے پہنچے والے قیدی لے لیتے۔اکتوبر 1942 میں جرمن ایس ایس اور پولیس کے اہلکار یہودی قیدیوں کے گروپوں کو استعمال کرتے ہوئے بیلزیک میں اجتماعی قبروں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا اور لاشوں کو کھل عام تندوروں میں جلانا شروع کر دیا۔ یہ تندور ریل کی پٹڑیوں سے بنائے جاتے تھے۔ جرمن ہڈیوں کے ٹکڑوں کو پیس کر پاؤڈر بنانے کیلئے مشینیں استعمال کرتے تھے۔ 1943 کے موسم بہار کی آخر میں کیمپ کو ختم کر دیا گیا۔ جون 1943 کے دوران باقی بچ جانے والے یہودی قیدیوں کو یا تو بیلزیک میں گولی مار دی گئی یا پھر اُنہیں گیس کے ذریعے ہلاک کرنے کی خاطر سوبی بور قتل مرکز میں بھجوا دیا گیا۔ بیلزیک کو ختم کرنے کے بعد جرمنوں نے اس جگہ پر ہل چلا دیا۔ سوویت فوجوں نے جولائی 1944 میں اس علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔