لوگوں کے ہجوم برلن کے مقام اوپرن پلاٹز میں ایسی کتابوں کو نذر آتش کرنے کیلئے اکٹھے ہو رہے ہیں جنہیں وہ

1933 میں پاپولر اینلائیٹنمنٹ اور پراپیگنڈے کے نازی وزیر جوزف گوئبیلز نے ثقافت کی ہم آہنگی کا کام شروع کیا جس میں فنون لطیفہ کو نازی مقاصد کے مطابق ڈھالا گیا۔ حکومت نے یہودیوں اور دوسرے لوگوں کی ثقافتی تنظیموں کو سیاسی یا فنی اعتبار سے مشتبہ قرار دیتے ہوئے اُنہیں ختم کرنا شروع کر دیا۔

جرمن یونیورسٹی کے طالب علم نازی تحریک میں پیش پیش رہے اور 1920 کی دہائی کے آخر میں اِن میں سے اکثر نے نازیوں کی تشکیل کے مختلف مراتب حاصل کئے۔ انتہا پسند قوم پرست یہود مخالف درمیانے طبقے کے طالب علموں کی سیکولر تنظیمیں کئی دہائیوں سے شدت پسند اور بے باک تھیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد بیشتر طالب علوں نے جمہوریہ وائی مار (1919-1933) کی مخالفت کی اور اپنی سیاسی بے اطمنانی اور مخاصمت کیلئے قومی اشتراکیت کو ہی مناسب ذریعہ خیال کیا۔

6 اپریل 1933 کو جرمن طالب علموں کی تنظیم کے پریس اور پروپیگنڈا کے مرکزی دفتر نے غیر جرمن روح کے خلاف ملک گیر کارروائی شروع کی جس کا نقطہ عروج آگ کے ذریعے ادبی تطیہر کا حصول تھا۔ مقامی دفاتر کے ذمے یہ فرض تھا کہ وہ پریس ریلیز اور مضامین فراہم کریں۔ عوامی اجتماع میں معروف اور جانی پہچانی نازی شخصیات کے خطاب کا اہتمام کریں اور ریڈیو نشریے کیلئے وقت حاصل کریں۔ 8 اپریل کو طالب علموں کی تنظیم نے بارہ نکات ترتیب دئے اور جان بوجھ کر مارٹن لوتھر کے تمثیلی انداز میں تطہیر شدہ قومی زبان اور ثقافت کیلئے اعلامیے اور ضوابط مقرر کئے۔ کتبوں کے ذریعے اپنے اس نظریے کی تشہیر کی جس میں یہودی دانشوری پر حملہ کیا گیا۔ جرمن زبان اور ادب کو "پاک" کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ یونیورسٹیوں کو جرمن قوم پرستی کے مراکز ہونا چاہئیے۔ طالب علموں نے اپنے اِس اقدام کو یہودیوں کی طرف سے جرمنی کے خلاف عالمگیر تحریک اور مہم کا رد عمل اور روایتی جرمن اقدار کی توثیق قرار دیا۔

10 مئی کو طالب علموں نے اہم اور نمایاں علامتی قدم اُٹھاتے ہوئے غیر جرمن کتابوں کی 25 ھزار جلدیں نذر آتش کردیں اور ریاستی سنسرشپ اور ثقافت پر کنٹرول کے دور کا آغاز کیا۔ 10 مئی کی شب کو بیشتر یونیورسٹی ٹاؤنز میں دائیں بازو کے طالب علموں نے "غیر جرمن اسپرٹ" کے خلاف ٹارچ لائیٹ پریڈیں منعقد کیں۔ تحریر شدہ روایتی اقدام کے طور پر اعلٰی نازی عہدیداروں، پروفیسروں، ریکٹروں اور طالب علم لیڈروں سے شرکاء اور تماشائیوں سے خطاب کرنے کیلئے کہا گیا۔ اجتماعی مقامات پر طالب علموں نے غیر مطلوب کتابوں کو خوشی سے بھرپور تقریب میں آگ کے الاؤ میں جھونک دیا۔ اِس موقع پر بینڈز نے نغمات پر پیش کئے۔

تمام کتابیں 10 مئی کو ہی نظر آتش نہ کی گئیں جیسا کہ جرمن طالب علموں نے منصوبہ بندی کی تھی۔ بعض کی آتشزدگی کے کام کو بارش کے باعث کچھ روز کیلئے مؤخر کر دیا گیا جبکہ کچھ کو مقامی دفاتر کی ترجیح کے مطابق موسم گرما کے طویل ترین دن یعنی 21 جون کو روایتی تقریب میں نذر آتش کیا گیا۔ تاہم جرمنی بھر میں 34 یونیورسٹی ٹاؤنز میں غیر جرمن اسپرٹ کے خلاف کارروائی کامیاب رہی جس کی اخبارات میں وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی اور بعض مقامات پر خاص طور سے برلن میں ریڈیو نشریات میں تقاریر، نغمات اور روایتی کلمات کو ان گنت جرمن سامعین کیلئے پیش کیا گیا۔

برٹالٹ بریخٹ، لائن فیوخٹ وینگر اور ایلفریڈ کر جیسے کلیدی مصنفوں کی تحریروں کو برلن میں کتابوں کو نذرآتش کرنے کی ایک تقریب میں شعلوں کی نذر کر دیا گیا۔ آریائی کلچر کی تشہیر اور فن اظہار کی دوسری قسموں کو ختم کرنا اور دبانا جرمنی کو "پاک" کرنے کی ہی نازی کوشش تھی۔ بلیک لسٹ کئے جانے والے دوسرے مصنفوں میں امریکی مصنف ارنیسٹ ھیمنگ وے اور ہیلن کیلر شامل تھے۔

کتابوں کو نذر آتش کرنے کے بڑے واقعات، مئی 1933