مشرقی بیلاروس میں 1944 کے موسم گرما میں ایک بڑے حملے کے نتیجے میں سوویت فوجوں کو ایک بڑے نازی جبری کیمپ لوبلن۔مجدانیک پر قبضے کا موقع مل گیا۔ سوویت فوجوں کی تیز رفتار پیش قدمی کی وجہ سے ایس ایس کو کیمپ خالی کرنے کا وقت نہ مل سکا۔ سوویت یونین اور مقربی ممالک کے ذرائع بلاغ نے مجدانیک میں روا رکھے گئے مظالم کی تشہیر وسیع پیمانے پر کی جس میں کیمپ کو آزاد کرائے جانے کے وقت کی فوٹیج اور زندہ بچ جانے والے قیدیوں کے انٹرویو کو شامل کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد ایس ایس کے سربراہ ھائنریخ ھملر نے حکم دیا کہ تمام جبری حراست کے کیمپوں سے قیدیوں کو نکال کر مغربی علاقوں کی طرف منتقل کیا جائے۔ ایس ایس حکام نہیں چاہتے تھے کہ قیدی اتحادی فوجوں کو اپنی کہانیاں سنانے کے لئے زندہ رہیں۔ اس کے علاوہ اُنہیں ہتھیاروں کے کارخانوں کیلئے بھی قیدیوں کی مشقت درکار تھی۔

سن 1944 کے موسم گرما اور خزاں کے آغاز میں قیدیوں کا زیادہ تر انخلاء ریل گاڑیوں کے ذریعے کیا گیا۔ تاہم سردیوں کی آمد پر اتحادی فوجوں نے پیش قدمی شروع کر دی جس کے نتیجے میں ایس ایس حکام نے قیدیوں کا انخلاء پیدل شروع کر دیا۔ جنوری 1945 تک جرمنی کی تیسری سلطنت فوجی شکست کے دہانے پر پہنچ گئی۔ قیدیوں کا انخلاء چونکہ زیادہ تر پیدل اور کھلے ریل ڈبوں میں ہو رہا تھا، اسلئے راستے میں تھکن سے چور ہو کر یا سردی لگنے سے ہلاک ہونے والے قیدیوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا۔ اس سے قیدیوں میں یہ تاثر زور پکڑنے لگا کہ جرمن یہ چاہتے ہیں کہ تمام قیدی انخلاء کے دوران ہلاک ہو جائیں۔ یوں موت کے مارچ کی اصطلاح غالباً حراستی کمپوں کے قیدیوں نے وضع کی تھی۔

ان موت کے مارچوں کے دوران ایس ایس گارڈ قیدیوں کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کرتے تھے۔ واضح احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے اُنہوں نے سینکڑوں ایسے قیدیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جو یا تو بے ہوش ہو کر گر پڑے تھے یا پھر مارچ کرنے کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکتے تھے یا پھر ریل گاڑیوں یا بحری جہازوں سے باہر نکلنے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ سردی لگنے، بھوک اور نقاہت کی وجہ سے ھزاروں قیدی موت کا شکار ہو گئے۔ یہ جبری مارچ خاص طور پر 1944 کے آخر اور 1945 میں عام تھے جب ایس ایس اہلکار قیدیوں کو جرمنی کے اندرونی علاقوں میں قائم کیمپوں میں منتقل کر رہے تھے۔ انخلاء کے بڑے اقدامات میں 1944 - 1945 کے موسم سرما میں قیدیوں کو آشوٹز، شٹٹ ھاف اور گراس روزن کیمپوں سے مغرب کی جانب بوخن والڈ، فلاسن برگ، ڈاخاؤ اور سیخسین ھاؤسن کیمپوں میں؛ 1945 کے موسم بہار میں بوخن والڈ اور فلاسن برگ سے ڈاخاؤ اور موٹ ھاؤسن؛ اور جنگ کے آخری ہفتوں میں شمالی علاقے کے سیخسین ھاؤسن اور نیواینگامے سے بالٹیک سمندر تک پہنچانا شامل تھے۔

جونہی اتحادی فوجوں نے جرمنی کے وسطی علاقے تک پیش قدمی کی، اُنہوں نے حراستی کیمپوں سے لاکھوں قیدیوں کو آزاد کرایا۔ ان میں وہ ھزاروں قیدی بھی شامل تھے جنہیں اتحادی اور سوویت فوجوں نے آزاد کرایا تھا جب اُنہیں جبری انخلاء کی خاطر مارچ کرایا جا رہا تھا۔ جرمن مسلح افواج نے 7 مئی 1945 کو مغربی علاقے میں اور 9 مئی کو مشرقی علاقے میں بلا مشروط ہتھیار ڈال دئے۔ جرمن حکام نے جنگ کے تقریباً آخری دن تک قیدیوں کو سلطنت کے مختلف مقامات کی جانب مارچ کرانا جاری رکھا۔