میں اس رات کو کبھی نہیں بھولوں گا، کیمپ میں پہلی رات، جس نے میری زندگی کو ایک طویل رات میں بدل دیا جو سات مرتبہ مہر بند رہی۔
میں اس دھوئیں کو کبھی نہیں بھولوں گا۔
میں ان بچوں کے ننھے چہروں کو کبھی نہیں بھولوں گا جن کے جسموں کو میں نے خاموش آسمان تلے دھوئیں میں بدلتے دیکھا۔
میں ان بھڑکتے شعلوں کو کبھی نہیں بھولوں گا جنہوں نے میرا ایمان ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
میں اس شبینہ خاموشی کو کبھی نہیں بھولوں گا جس نے مجھے جینے کی خواہش سے تمام ابدیت کے لیے محروم کر دیا۔
میں ان لمحات کو کبھی نہیں بھولوں گا جنہوں نے میرے خدا اور میری روح کا قتل کیا اور میرے خوابوں کو راکھ کر دیا۔
میں ان چیزوں کو کبھی نہیں بھولوں گا، خواہ مجھے تب تک زندہ رہنے پر مجبور کر دیا جائے جب تک خدا خود موجود رہے گا۔
 ایلی ویزل1 کی تصنیف نائیٹ سے اقتباس 

ایلی ویزل کون تھے؟

ایلی ویزل (1928–2016) ہولوکاسٹ کے سب سے معروف زندہ بچ نکلنے والے اور عالمی شہرت یافتہ مصنف اور انسانی حقوق کے علمبردار تھے۔ ان کی پہلی کتاب، نائیٹ، آشوٹز میں نوعمری کے دوران درپیش مصائب کو بیان کرتی ہے اور ہولوکاسٹ ادب کا معیاری شاہکار بن چکی ہے۔ 1986 میں، انہیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

ویزل 30 ستمبر 1928 کو سیگیٹ، ٹرانسلوانیا (رومانیہ، 1940–1945 تک ہنگری کا حصہ تھا) میں پیدا ہوئے تھے۔ سن 1944 میں، انہیں اور ان کے خاندان کو آشوٹز میں ملک بدر کر دیا گیا۔ ہولوکاسٹ میں صرف وہ اور ان کی تین بہنوں میں سے دو اپنی جاننیں بچا سکیں۔

جنگِ عظیم دوم کے بعد، ویزل ایک صحافی، نامور مصنف، پروفیسر، اور حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن بن گئے۔ وہ سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں مطالعہ یہودیت کے ایک ممتاز پروفیسر تھے (1972–1976)۔ 1976 میں وہ بوسٹن یونیورسٹی میں ہیومینٹیز کے شعبے میں اینڈریو ڈبلیو میلن پروفیسر بن گئے، جہاں انہوں نے یونیورسٹی پروفیسر کا عہدہ بھی برقرار رکھا۔-83 - 1982 کے تعلیمی سال کے دوران، ویزل ییل یونیورسٹی میں ہیومینٹیز سماجی فکر کے پہلے ہنری لوس وزٹنگ اسکالر تھے۔  

ویزل نے ہولوکاسٹ کے بارے میں یاد کرنے اور اس سے سیکھنے کے لیے بڑی محنت کے ساتھ دلائل پیش کیے۔ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی تخلیق کی ایک محرک قوت تھے۔ نسل کشی کے ان کے ذاتی تجربے  نے انہیں دنیا بھر کے مظلوم لوگوں کی ایماء پر آواز اٹھانے پر مجبور کیا۔ نوبل کمیٹی نے انہیں امن کے انعام سے نوازا "کیونکہ وہ بنی نوع انسان کے لیے ایک پیامبر تھے: ان کا پیغام امن، کفارہ اور وقار ہے۔"

ایلی ویزل کا انتقال 2 جولائی 2016 کو 87 سال کی عمر میں ہوا۔

ہولوکاسٹ کے دوران ایلی ویزل کی قید

مارچ 1944 میں، نازی جرمنی نے اپنے اتحادی ہنگری پر قبضہ کر لیا۔ 15مئی سے 9 جولائی 1944 کے درمیان، ہنگری کے عہدیداران  نے جرمن حکام کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے تقریباً 440,000 یہودیوں کو ابتدائی طور پر آشوٹز میں ملک بدر کر دیا، جہاں بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سب سے پہلے ملک بدر کیے جانے والوں میں سیگیٹ کے یہودی شامل تھے، جن میں ویزل، ان کے والدین اور ان کی تین بہنیں شامل تھیں۔ وہ اس وقت 15 سال کے تھے۔ 

ویزل خاندان کو آشوٹز-برکیناؤ بھیجا گیا۔ اس جگہ کو ایک حراستی کیمپ اور قتل گاہ دونوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ جب خاندان وہاں پہنچا تو ویزل کی والدہ سارہ اور چھوٹی بہن زیپورا کو موت کے لیے منتخب کیا گیا اور گیس کے چیمبر میں قتل کر دیا گیا۔ ان کی دو بڑی بہنیں، بیٹریس اور ہِلڈا، کو جبری مشقت کے لیے چُنا گیا اور وہ دوران جنگ اپنی زندگی بچانے میں کامیاب ہو گئیں۔ 

ویزل اور ان کے والد شلومو کو بھی جبری مشقت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ویزل کو آشوٹز III (مونووٹز) میں بُونا (مصنوعی ربڑ) فیکٹری میں کام پر لگا دیا گیا تھا۔ بعد میں انہیں اور ان کے والد کو آشوٹز سے بوخنوالڈ  لے جایا گیا، جہاں ان کے والد انتقال کر گئے۔ 

ویزل کی پہلی کتاب: لا نوئیٹ (نائیٹ)

جنگ کے بعد، ویزل نے پیرس میں تعلیم حاصل کی اور آخر کار وہیں صحافی بن گئے۔ تقریباً ایک دہائی تک، انہوں نے اس بارے میں خاموشی اختیار کیے رکھی جو انہوں نے آشوٹز اور بوخنوالڈ کیمپوں میں ایک قیدی کی حیثیت سے سہا تھا۔ 1954 میں فرانسیسی مصنف فرانسوا موریاک نے ایک انٹرویو کے دوران، ویزل کو اس خاموشی کو ختم کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے لا نوئیٹ (نائیٹ) تحریر کی۔ 1958 میں لا نوئیٹ (نائیٹ) کی اشاعت کے بعد سے اس کتاب کا 30 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے اور لاکھوں کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ 

نائیٹ میں، ویزل ہولوکاسٹ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں اپنے تجربات کے بارے میں لکھتے ہیں۔ دیگر باتوں کے علاوہ، وہ بیان کرتے ہیں:  

  • رومانیہ کے شہر سیگیٹ میں ان کے خاندان اور پڑوسیوں کی پکڑ دھکڑ؛
  • مویشی گاڑی کے ذریعے حراستی کیمپ آشوٹز-برکیناؤ میں ملک بدری؛
  • انتخاب کا وہ عمل جس میں ان کی والدہ اور چھوٹی بہن کو گیس چیمبر میں فوراً موت دینے کے لیے منتخب کیا گیا تھا؛
  • ویسا ہی عملِ انتخاب جس دوران انہیں، ان کے والد، اور ان کی دو دوسری بہنوں کو کیمپ کے اہلکاروں نے جبری مشقت کے لیے چُنا تھا؛
  • اور آشوٹز-برکیناؤ سے بوخنوالڈ کے حراستی کیمپ تک موت مارچ کو بیان کرتے ہیں۔

مزید برآں، ویزل اس ذہنی اور جسمانی اذیت کو بھی بیان کرتے ہیں جس کا سامنا انہوں نے اور ان کے ساتھی قیدیوں نے کیا جب انہیں کیمپ میں سفاکانہ حالات کے ذریعے انسانیت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنی روحانی جدوجہد اور ایمان کے بحران کے بارے میں بھی لکھتے ہیں۔  

ایلی ویزل بحیثیت مصنف

ویزل ایک کثیرالتصانیف مصنف اور مفکر تھے۔ نائیٹ کے علاوہ، انہوں نے 40 سے زائد کتابیں لکھیں جن کے لیے انہیں کئی ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان میں یہ شامل ہیں:

  • دا پرکس میڈیچی برائے ایک یروشلم میں ایک بھکاری (1968)
  • دا پرکس لیورے انٹر برائے دا ٹیسٹیمنٹ (1980)
  • ادب کیلئے گرینڈ انعام منجانب پیرس شہر برائے دا ففتھ سن (1983)

ان کی تصانیف میں دو جلدوں میں تحریر کردہ ایک آپ بیتی بھی شامل ہے۔ پہلی جلد کا عنوان ہے تمام دریا سمندر میں شامل ہوتے ہیں (1995)۔ دوسری کا عنوان ہے اور سمندر کبھی نہیں بھرتا (1999)

ایلی ویزل بحیثیت حقوقِ انسانی کے سرگرم کارکن

1978 میں، صدر جمی کارٹر  نے ویزل کو ہولوکاسٹ پر صدر کے کمیشن کا چیئرمین تعینات کیا۔ ویزل نے کمیشن رپورٹ تحریر کی، جس میں ریاست ہائے متحدہ کی حکومت کو واشنگٹن ڈی سی میں ہولوکاسٹ کی یادگار اور میوزیم قائم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ 

1980 میں، ویزل ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ہولوکاسٹ میموریل کونسل کے بانی چیئرمین بن گئے۔ یہ کونسل، کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ دار تھی۔ ویزل کا خیال تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کو ایک "جیتی جاگتی یادگار" کا کام کرنا چاہیے جو موجودہ اور آئندہ نسلوں کو نفرت کا مقابلہ کرنے، نسل کشی کی روک تھام کرنے اور انسانی وقار کو فروغ دینے کی ترغیب دے گا۔

1992 میں، ویزل پیرس میں قائم، انسانی حقوق کی تنظیم، یونیورسل اکیڈمی آف کلچرز کے بانی صدر بن گئے۔

دنیا بھر میں حقوقِ انسانی اور امن کا دفاع کرنے کی ویزل کی کاوشوں کے بدولت انہوں نے صدارتی تمغہ برائے آزادی، ریاست ہائے متحدہ کا کانگریشنل گولڈ میڈل اور میڈل آف لبرٹی ایوارڈ، اور فرنچ لیجن آف آنر میں گرینڈ کروکس کا عہدہ حاصل کیا۔ انہوں نے اعلیٰ تدریس کے اداروں سے 100 سے زائد اعزازی ڈگریاں حاصل کیں۔ 

1986 میں، ایلی ویزل کو امن کے نوبل انعام سے نواز گیا۔ ایک پریس ریلیز میں، نوبل کمیٹی نے ویزل کو اس طرح بیان کیا:

ویزل بنی نوع انسان کے لیے ایک پیامبر ہیں؛ ان کا پیغام امن، کفارہ اور انسانی وقار ہے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں برائی سے لڑنے والی طاقتیں فتح مند ہو سکتی ہیں۔ یہ محنت سے حاصل کیا گیا عقیدہ ہے۔ ان کا پیغام ہٹلر کے موت کے کیمپوں میں دکھائی گئی مکمل تذلیل اور انسانیت کی سراسر توہین کے اپنے ذاتی تجربے پر مبنی ہے۔ پیغام ایک شہادت کی شکل میں ہے، جسے ایک عظیم مصنف کے شاہکاروں کے ذریعے دہرایا اور جامیعت سے بیان کیا گیا ہے۔2

امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے تین ماہ بعد، ایلی ویزل اور اس کی اہلیہ ماریون نے ایلی ویزل فاؤنڈیشن برائے انسانیت قائم کی۔ اس کا مشن  انسانیت کو درپیش فوری اخلاقی مسائل پر بحث و مباحثہ کے لیے ایک نیا فورم بنا کر پوری دنیا میں حقوقِ انسانی اور امن کے نصب العین کو آگے بڑھانا ہے۔

ایلی ویزل ایوارڈ 

ایلی ویزل ایوارڈ ہر سال ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ بین الاقوامی سطح پر نامور افراد کی شناخت کرتا ہے جن کے اقدامات نے میوزیم کے اس دنیا سے متعلق نقطہ نظر کو آگے بڑھایا ہے جس دنیا میں لوگ نفرت کا سامنا کرتے، نسل کشی کی روک تھام کرتے اور انسانی وقار کو فروغ دیتے ہیں۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہولوکاسٹ میموریل میوزیم ایوارڈ کے طور پر 2011 میں قائم کیا اور افتتاحی وصول کنندہ ایلی ویزل کے لیے نیا نام دیا گیا، یہ میوزیم کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔

اکثر پوچھے گئے سوالات

کیا ایلی ویزل نے اپنی بہنوں کو تلاش کیا؟

آزادی کے بعد ویزل اور ان کی بڑی بہنیں بیٹریس اور ہلڈا دوبارہ مل گئے۔ جنگ کے بعد، ویزل کو سب سے پہلے فرانس میں چلڈرنز ہومز میں بھیجا گیا، جہاں ان کی تصویر کھینچی گئی۔ ہِلڈا نے ایک اخبار میں اپنے بھائی کی تصویر دیکھی، اور یہ دونوں پیرس میں اکھٹے ہو گئے۔ کئی مہینوں بعد، انہیں معلوم ہوا کہ بیٹریس بھی حیات ہے۔ویزل کی چھوٹی بہن، زیپورا کو آشوٹز میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ 

کیا ایلی ویزل کے خاندان میں سے کوئی زندہ بچ پایا تھا؟

ویزل کی بڑی بہنیں، بیٹریس اور ہِلڈا، اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ ان کے والدین، سارہ اور شلومو، اور چھوٹی بہن، زیپورا، کو مارا دیا گیا تھا۔

ایلی ویزل کا انتقال کب ہوا؟

ایلی ویزل کا انتقال 2 جولائی 2016 کو 87 سال کی عمر میں ہوا۔

ایلی ویزل نے نوبل انعام کیوں جیتا؟

ایلی ویزل کو دنیا بھر میں انسانی حقوق اور امن کا دفاع کرنے کے لیے ان کی کوششوں پر امن کے نوبل انعام سے نواز گیا۔ 1986 میں، نوبل کمیٹی نے لکھا، "ویزل بنی نوع انسان کے لیے ایک پیامبر ہیں؛ ان کا پیغام امن، کفارہ اور انسانی وقار ہے۔"۔ 

نائیٹ کے آخر میں ایلی ویزل کی عمر کتنی تھی؟

نائیٹ کے اختتام پر ایلی ویزل کی عمر 16 سال تھی۔ 

وہ تمام حراستی کیمپ کون سے تھے جہاں ایلی ویزل گئے تھے؟

ویزل کو مئی 1944 میں آشوٹز برکیناؤ میں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہیں آشوٹز سوم میں جبری مشقت کے لیے بھیجا گیا، جسے مونووٹز بھی کہا جاتا ہے، جو مرکزی کیمپ سے کئی میل کی مسافت پر واقع تھا۔ جنوری سن 1945 میں، ویزل کو بوخنوالڈ حراستی کیمپ بھیج دیا گيا۔ 

ایلی ویزل نے ہولوکاسٹ سے قبل اور بعد میں خدا پر اپنے یقین کو کیسے بیان کیا؟

ایلی ویزل نے تحریروں، تقریروں اور انٹرویوز میں خدا کے ساتھ اپنے تعلق کی عکاسی کی۔ وہ ایک نوجوان لڑکے کی حیثیت سے اپنے عقیدت مند ایمان اور مذہبی تعلیم کے بارے میں قلم بند کرتے ہوئے اپنی آپ بیتی نائیٹ کا آغاز کرتے ہیں۔جب وہ نائیٹ میں آشوٹز کی غیر انسانیت کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو ویزل وضاحت کرتے ہیں کہ انہوں نے خدا سے سوال پوچھنا شروع کر دیا تھا۔آزادی کے 50 سال بعد، انہوں نے اس کی کچھ یوں عکاسی کی:"آپ پر میرے ایمان کے بارے میں کیا کہا جائے، اے مالکِ کائنات؟ اب مجھے احساس ہوا کہ میں نے اسے (اپنا ایمان) کبھی نہیں کھویا، یہاں تک کہ وہاں اپنی زندگی کے تاریک ترین اوقات کے دوران بھی نہیں۔"3