یہودی کاروباروں کا بائيکاٹ
"یہودی بائیکاٹ" ("Judenboykott") جرمنی کے یہودیوں کے خلاف نازی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی پہلی مربوط کارروائی تھی۔ یہ یکم اپریل، 1933 بروز ہفتہ کو ہوا۔
اس دن، جرمنوں کو ان دکانوں اور کاروباروں پر خریداری نہیں کرنی تھی جنہیں نازیوں نے یہودی کے طور پر شناخت کیا تھا۔ انہوں نے یہودی ڈاکٹروں اور وکلاء کے پاس بھی نہیں جانا تھا۔
نازیوں نے بائیکاٹ کا مطالبہ کیوں کیا؟
نازی ترجمان کے مطابق، بائیکاٹ دو گروپس کے خلاف انتقامی کارروائی تھی:
- جرمن یہودی
- امریکی اور برطانوی صحافیوں سمیت نازی حکومت پر تنقید کرنے والے غیر ملکی۔
تاہم، یہ شاید بنیادی سبب نہیں تھا۔ نازی سام دشمن عقائد پر مبنی محرکات اس کے علاوہ تھے۔
سب سے پہلے، نازیوں نے سازشی نظریات پر یقین کیا اور پھیلایا جن کا دعویٰ تھا کہ معیشت پر یہودیوں کا بہت زیادہ اثر ہے۔ دوسرا، انہوں نے غیر منصفانہ طور پر یہودیوں کو عظیم کساد بازاری کی وجہ سے ہونے والی معاشی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ آخر میں، نازیوں کا حتمی مقصد جرمن معیشت سے یہودیوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کا پہلا مرحلہ بائیکاٹ کرنا تھا۔
بائیکاٹ کیسے کیا گیا؟
یکم اپریل کا بائیکاٹ پورے نازی جرمنی میں بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں ہوا۔ پروگرام کے مطابق یہ صبح 10 بجے شروع ہونا تھا اور رات 8 بجے تک چلنا تھا۔
بائیکاٹ کی تیاری میں، نازیوں نے ان کاروباروں کی فہرستیں بنائی تھیں جنہیں وہ یہودی سمجھتے تھے۔ انہوں نے ان دکانوں کے باہر وردی پوش نازیوں (جسے اسٹروم ٹروپرز یا ایس اے افراد کہا جاتا ہے) اور ہٹلر یوتھ ممبران کو تعینات کیا۔ وردی پوش نوجوانوں نے ممکنہ خریداروں کو ڈرایا دھمکایا۔
سام دشمن بائیکاٹ کا پروپیگنڈا پورے جرمنی میں کاروباری اور شاپنگ اضلاع میں ظاہر ہوا۔ اس نے مختلف شکلیں اختیار کیں:
- نازیوں نے سٹور کی ڈسپلے کی کھڑکیوں پر گریفیٹی پینٹ کی۔ اس گرافٹی میں ڈیوڈ کا ستارہ اور لفظ "جوڈ" (جرمن لفظ "یہودی") شامل تھا۔
- بائیکاٹ کرنے والوں کے پاس تمام شہروں اور قصبوں میں نشانیاں موجود تھیں جنہیں انہوں نے آویزاں کر دیا۔ ایسی علامات پر ایک عام نعرہ تھا "جرمن! اپنا دفاع کرو! "یہودیوں سے خریداری مت کرو!"
- کچھ غیر یہودی کاروباری مالکان نے اپنے کاروبار کو "جرمن-عیسائی" کے طور پر شناخت کرنے والے نشانات آویزاں کیے، یعنی یہودی نہیں۔
- نازیوں نے یہودی مخالف نعرے لگاتے اور نازی گانے گاتے ہوئے سڑکوں پر ڈرائیونگ کی اور مارچ کیا۔
سرکاری طور پر، بائیکاٹ کو پرتشدد نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ تاہم اس سے کچھ نازیوں کو یہودیوں کی مار پیٹ کرنے اور کچھ صورتوں میں، انہیں قتل کرنے سے بھی نہیں روکا جا سکا۔
جرمنی کے یہودیوں نے بائیکاٹ پر کیسا ردعمل ظاہر کیا؟
جرمنی کے یہودیوں کے لیے، نازی حکومت کے ابتدائی مہینوں میں بائیکاٹ ایک تباہ کن اور قابل ذکر لمحہ تھا۔ اس سے بہت سے یہودی ناراض ہو گئے، لیکن دوسرے خوفزدہ بھی ہو گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب نئی نازی حکومت نے سرکاری اور عوامی طور پر جرمنی کی یہودی آبادی کو ایک گروپ کے طور پر نشانہ بنایا اور منظم طریقے سے یہودیوں کے ساتھ دوسرے جرمنوں سے مختلف سلوک کیا۔
یہودی سٹوروں کے مالکان نے مختلف طریقوں سے بائیکاٹ پر ردعمل ظاہر کیا۔ زیادہ تر نے اس دن کے لئے اپنی دکانیں بند رکھنے کا انتخاب کیا۔ وہ تشدد اور اپنی املاک کی تباہی سے بچنا چاہتے تھے۔ دوسرے یہودی اسٹور مالکان نے مزاحمت کے طور پر اپنی دکانیں کھلی رکھیں۔ چند صورتوں میں، یہودیوں کا بائیکاٹ کرنے والے نازیوں کے ساتھ تصادم ہوا۔
غیر یہودی جرمنوں نے بائیکاٹ پر کیا ردعمل ظاہر کیا؟
غیر یہودی جرمنوں نے بھی بائیکاٹ پر مختلف طریقوں سے ردعمل کا اظہار کیا۔ کچھ نے توڑ پھوڑ اور ہراساں کرنے میں حصہ لیا۔ کچھ اس تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہے، لیکن براہِ راست اس میں شامل نہیں ہوئے۔ دوسروں نے بائیکاٹ کو نظر انداز کیا اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف رہے۔ کچھ لوگوں نے گھر میں رہنے کا انتخاب کیا، کیونکہ وہ تصادم اور یہاں تک کہ تشدد سے خوفزدہ تھے۔
جرمنوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے جان بوجھ کر یہودیوں کی ملکیت والے کاروبار سے خریداری کی۔ انہوں نے ایسا اپنے یہودی پڑوسیوں کی حمایت کرنے، حکومت کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کرنے یا عوامی انتشار کے لیے اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرنے کے لیے کیا تھا۔
بائیکاٹ کے بعد یہودیوں کی ملکیت والے کاروباروں کے ساتھ کیا ہوا؟
یکم اپریل 1933 کا بائیکاٹ نازی حکومت کا یہودیوں کے ملکیتی کاروباروں پر آخری حملہ نہیں تھا۔ لیکن، یہ آخری ملک گیر بائیکاٹ تھا۔
اس کے بجائے، نازی حکومت نے یہودی کاروباری مالکان پر دباؤ ڈالنے کے دوسرے طریقے تلاش کیے۔ مقامی اور بلدیاتی حکومتوں نے اپنے طور پر بائیکاٹ کیا۔ وردی پوش نازیوں نے یہودی کاروباری مالکان کو ہراساں کرنا جاری رکھا۔ قومی سطح پر، قوانین اور ضوابط کی بڑھتی ہوئی تعداد نے یہودیوں کی ملکیتی دکانوں کو نشانہ بنایا۔ ان دکانوں کی اکثریت کو 1930 کی دہائی میں کاروبار سے باہر کر دیا گیا جس کی وجہ سے بہت سے یہودی خاندان اپنے روزگار سے محروم ہو گئے۔ 1938 کے آخر تک نازی حکومت نے جرمنی میں یہودیوں کی معاشی زندگی کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔
اہم تاریخیں:
1933–1938
یہودی کاروباروں کو تباہ کرنا
1933-1938 تک، نازی حکومت غیر سرکاری طور پر یہودی کاروباری مالکان پر دباؤ ڈالتی رہی تاکہ وہ اپنے کاروبار بند کر دیں یا بیچ دیں۔ نازی جرمنوں کو غیر یہودیوں کی ملکیت والے اسٹورز سے خریداری کرنے کی ترغیب دینے کے لیے پروپیگنڈے اور دھمکیوں کا استعمال کیا گیا۔ یہودی تیزی سے جرمن معاشرے کے باقی حصوں سے الگ تھلگ ہو رہے تھے۔ یہودیوں کی ملکیتی دکانیں سابقہ وفادار گاہکوں سے محروم ہو گئیں۔ دیرینہ کاروباری تعلقات ٹوٹ گئے۔ کچھ یہودیوں نے اپنے کاروبار بہت کم قیمت پر بیچ دیے۔ دوسرے کاروبار ناکام ہو تے گئے۔ اس عمل میں بہت سے غیر یہودی کاروباری حضرات اور افراد کو فائدہ ہوا۔
نومبر 9–10، 1938
ٹوٹے ہوئے کانچ کی رات کو توڑ پھوڑ
9-10 نومبر 1938 کی رات کو، نازی حکومت نے نازی جرمنی میں سام دشمن تشدد کی ایک لہر کو مربوط کیا۔ نازیوں کے منظم گروپ یہودیوں کی زندگی کو تباہ کر رہے تھے۔ انہوں نے ہزاروں یہودیوں کے کاروبار میں توڑ پھوڑ کی، دکانوں کے شیشے توڑ دیے۔ یہ کرسٹل ناخٹ یا "ٹوٹے ہوئے کانچ کی رات" کی اصطلاح سے معروف ہو گیا۔ اس کا نام اسٹور کی کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں پر رکھا گیا جو تشدد کے بعد گلیوں میں بکھرے پڑے تھے۔ یہ یہودیوں کے باقی ماندہ کاروباروں پر براہ راست حملہ تھا۔
نومبر 12، 1938
جرمن اقتصادی زندگی سے یہودیوں کے خاتمے کا حکم نامہ
ٹوٹے ہوئے کانچ کی رات یعنی کرسٹل ناخٹ کے بعد، نازی حکومت نے یہودیوں کے ملکیتی کاروبار کو تباہ کرنے کی اپنی کوششیں بڑھا دیں۔ وہ قوانین اور ضوابط کا استعمال کرتے ہوئے ایسا کرتے رہے۔ 12 نومبر کو حکومت نے یہودیوں کو معاشی زندگی سے خارج کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، یہودیوں کو ریٹیل اسٹورز چلانے یا تجارت کرنے سے منع کیا گیا۔ یہ قانون یہودیوں کو کسی بھی قسم کے ادارے میں سامان فروخت کرنے یا خدمات فراہم کرنے سے منع کرتا تھا۔
اس حکم نامے کے تحت یہودیوں کی ملکیت کے باقی ماندہ کاروباروں کو یا تو بند کرنا یا "آرینائزیشن" سے گزارنا تھا۔ "آرینائزیشن" کے معاملات میں، یہودی کاروباری مالکان کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے کاروبار کو غیر یہودی جرمنوں کو بیچ دیں یا ان کے حوالے کر دیں۔