"ٹوٹے ہوئے کانچ کی رات"
9-10 نومبر 1938 کی رات کو، نازی حکومت نے نازی جرمنی میں سام دشمن تشدد کی ایک لہر کو مربوط کیا۔ یہ بطور کرسٹل ناخٹ یا "ٹوٹے ہوئے کانچ کی رات" معروف ہو گیا۔ اس کا نام اسٹور کی کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں پر رکھا گیا تھا جو تشدد کے بعد گلیوں میں بکھرے پڑے تھے۔
تشدد کو یہودیوں کے خلاف غصے کے غیر منصوبہ بند اظہار کے طور پر دکھایا جانا مقصود تھا۔ درحقیقت، ایڈولف ہٹلر کی حمایت کے ساتھ نازی قائدین نے اسے سرگرم ہو کر مربوط کیا تھا۔ 9 نومبر کی رات، انہوں نے نازی پارٹی کے نیم فوجی دستوں (ایس اے، ایس ایس، اور ہٹلر یوتھ) کو یہودی کمیونٹیز پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔
اس کے بعد کے گھنٹوں اور دنوں میں، نازیوں کے منظم گروہوں نے نازی جرمنی میں یہودیوں کی زندگی کو تباہ و برباد کر دیا۔ انہوں نے یہودیوں کی سینکڑوں عبادت گاہیں جلا دیں۔ انہوں نے ہزاروں یہودیوں کے کاروبار میں توڑ پھوڑ کی، دکانوں کے شیشے توڑ دیئے۔ انہوں نے یہودیوں کے قبرستانوں اور گھروں کو نقصان پہنچایا۔ نازی قائدین نے پولیس اور فائر بریگیڈ والوں کو حملوں کو نظر انداز کرنے کے لئے کہا۔ پولیس فورسز نے یہودیوں یا ان کی املاک کی حفاظت نہیں کی۔ فائر بریگیڈ والوں نے عبادت گاہوں کی آگ نہیں بجھائی۔ سینکڑوں یہودی کرسٹل ناخٹ کے دوران اور اس کے بعد ہلاک ہو گئے۔
اگلی صبح، نازی حکومت نے پولیس کو تقریباً 30,000 جرمن یہودی مردوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ ان افراد نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ پولیس نے صرف یہودی ہونے کی بنا پر ان کو گرفتار کیا۔ انہیں داخاؤ اور بوخنوالڈ جیسے حراستی کیمپوں میں بھیجا گیا۔ گرفتاریوں سے یہودی خاندانوں اور کمیونٹیز کو صدمہ پہنچا اور وہ خوفزدہ ہو گئے۔ اگر خاندان ثابت کر سکیں کہ ان کا جرمنی چھوڑنے کا منصوبہ ہے تو نازی حکام نے ان میں سے بہت سے افراد کو رہا کر دیا۔ دوسرے افراد ان کیمپوں میں مر گئے۔
"ٹوٹے ہوئے کانچ کی رات" جرمنی کے یہودیوں کے لیے ایک اہم موڑ تھا۔ بعد ازاں، بہت سے یہودیوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ نازی جرمنی میں ان کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔
اہم تاریخیں:
7 نومبر، 1938
محرکات برائے کرسٹل ناخٹ
ہرشل گرینزپین ارنسٹ ووم راتھ کو گولی مارتا ہے۔ گرینزپین پیرس میں رہنے والا 17 سالہ پولش-جرمن یہودی ہے۔ ووم روتھ ایک معمولی جرمن سفارت کار ہیں جو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں تعینات ہیں۔ گرینزپین بظاہر اپنے والدین کی قسمت پر مایوسی کی وجہ سے یہ کام کرتا ہے، جنہیں نازی حکومت نے جرمنی سے پولینڈ جلاوطن کر دیا تھا۔ نازیوں نے اس قتل کا استعمال سام دشمن جوش اور ولولے کی آگ کو ہوا دینے کے لئے کیا. انہوں نے دعوٰی کیا کہ گرینزپین اکیلا نہيں تھا، بلکہ وہ جرمنی کے خلاف ایک بہت بڑی یہودی سازش کا صرف ایک حصہ تھا۔ جب 9 نومبر کو ووم روتھ وفات پا جاتا ہے تو نازی قائدین اس نظریہ کو کرسٹل ناخٹ کے لئے بہانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
9 نومبر1938
جوزف گوبلز کرسٹل ناخٹ کے لئے اکساتا ہے
جرمنی بھر سے نازی پارٹی کے رہنما میونخ میں بیئر ہال پوٹش کی یاد منانے کے لیے جمع ہیں۔ 1923 میں بیئر ہال پوٹش ایڈولف ہٹلر کی طرف سے جرمنی میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش تھی۔ تقریب کے دوران، انہیں پتہ چلا کہ ووم روتھ اپنے زخموں کے باعث چل بسا ہے۔ ردعمل میں، جرمنی کے پروپیگنڈا وزیر جوزف گوبلز نے جوش و جذبہ سے بھرپور سام دشمنی پر مبنی تقریر کی۔ ہٹلر کی اجازت سے، گوبلز نے جرمنی کی یہودی کمیونٹیز پر حملے کا حکم دیا۔ تقریر کے بعد، نازی اہلکار اپنے آبائی اضلاع کو فون کرتے ہیں اور گوبلز کی ہدایات سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ تششد ہوا جسے آج ہم کرسٹل ناخٹ، یا "ٹوٹے ہوئے کانچ کی رات" کہتے ہیں۔
15 نومبر 1938
امریکی کرسٹل ناخٹ کی مذمت کرتے ہیں
امریکی اخبار کی شہ سرخیاں کرسٹل ناخٹ کے تشدد کی مذمت کرتی ہیں۔ 15 نومبر 1938 کو ایک پریس کانفرنس میں، امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے سام دشمن حملے کی مذمت کی۔ ایک سرکاری بیان میں، وہ لکھتے ہیں، "میرے لیے یہ یقین کرنا نہایت مشکل تھا کہ بیسویں صدی کی تہذیب میں ایسی چیزیں ہو سکتی ہیں۔" صدر نے جرمنی میں امریکی سفیر کو واپس بلا لیا۔