سام دشمنی سام دشمنی ہالوکاسٹ کے دوران لاتعداد افراد کو پیش آنے والے سانحے کو سمجھنے کا نقطہ آغاز ہے۔

تاریخ کے ہر دور میں یہودیوں نے تعصب اور امتیاز کا سامنا کیا ہے جسے سام دشمنی کا نام دیا گيا ہے۔ دو ہزار سال پہلے روم کے باشندوں نے انہيں اس علاقے سے نکال دیا جسے اب اسرائيل کہا جاتا ہے اور وہ دنیا پھر میں پھیل کر ایک اقلیت کے طور پر اپنی انفرادی ثقافت اور عقائد برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ کچھ ممالک میں یہودیوں کا خیرمقدم کیا گيا اور وہ اپنی پڑوسیوں کے ساتھ لمبے عرصے تک امن و سکون سے رہتے رہے۔ یورپی معاشروں میں، جہاں کی آبادی کی اکثریت عیسائیوں پر مشتمل تھی، وہاں یہودیوں کو باہر کے لوگوں کے طور پر بتدریج علیحدہ کیا جاتا تھا۔ یہودی، عیسائیوں کی طرح حضرت عیسی علیہ اسلام کو خدا کا بیٹا نہيں مانتے ہيں اور کئی عیسائی حضرت عیسی علیہ اسلام کی خدائیت کو ماننے کے اس انکار کو تکبر کی نشانی سمجھتے تھے۔ کئی صدیوں تک چرچ نے یہ سکھایا کہ حضرت عیسی علیہ اسلام کی موت یہودیوں کی وجہ سے ہوئی اور آج کے مورخوں کی طرح اس بات کو نظر انداز کردیا کہ حضرت عیسی علیہ اسلام کو روم کی حکومت نے اس وجہ سے ہلاک کیا تھا کہ افسران انہيں اپنے اقتدار کے لئے ایک سیاسی خطرہ سمجھتے تھے۔ مذہبی تصادموں کے ساتھ معاشی تصادم بھی شامل تھے۔ حکمرانوں نے یہودیوں پر پابندیاں لگا دیں اور ان پر مخصوص ملازمتیں کرنے اور زمین کی ملکیت حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی۔

اسی وقت، چونکہ پرانے زمانے کا چرچ سود خوری (پیسے کی سود سمیت لین دین) کی اجازت نہیں دیتا تھا، یہودیوں نے عیسائی اکثریت کے لئے ساہوکاروں کا ضروری (لیکن غیر مقبول) کردار ادا کیا۔ زیادہ خراب وقتوں میں یہودی لوگوں کے کئی مسائل کے لئے قربانی کے بکری بھی بنے۔ مثال کے طور پر ان کو "کالی موت" نامی اس طاعون کا ذمہ دار ٹھہرایا گيا جس کی وجہ سے قرون وسطیٰ میں ہزاروں افراد کی موت واقع ہوئی۔ اسپین میں پندرہویں صدی میں یہودیوں کو عیسائی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انہيں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گيا اور انہيں موت کے گھاٹ بھی اتارا گيا۔ روس اور پولینڈ میں انیسویں صدی کے آواخر میں حکومت نے یہودی محلوں پر پرتشدد حملے کروائے یا ان کی روک تھام نہ کی۔ انہیںپوگرامکہا جاتا تھا اور ان میں ہجوموں نے یہودیوں کو جان سے مار دیا اور ان کے گھروں اور دکانوں پر لوٹ مار کی۔

جیسے جیسے انیسویں صدی میں مشرقی یورپ میں سیاسی مساوات اور آزادی کے خیالات پھیلنے لگے، یہودی، قانون کے تحت تقریباً برابر کے شہری بن گئے۔ تاہم اسی وقت سام دشمنی کی نئی شکلیں ابھرنا شروع ہوئيں۔ افریقہ اور ایشیاء میں کالونیاں قائم کرنے کے خواہش مند یورپی افراد نے دلائل پیش کرنا شروع کردئیے کہ سفید چمڑی رکھنے والے افراد دوسری نسلوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ لہذا انہيں پھیل کر "کمزور" اور "کم مہذب" نسلوں پر غالب ہونے کی ضرورت ہے۔ چند مصنفین نے اس کا یہودیوں پر بھی اطلاق کیا اور غلطی سے یہودیوں کا شمار سام نسل میں کیا جن کا خون اور جسمانی خصوصیات ایک جیسی تھیں۔

اس قسم کی نسلی سام دشمنی کے مطابق یہودی، عیسائی مذہب قبول کرنے کے باوجود بھی نسلی طور پر یہودی ہی رہتے۔ کچھ سیاست دانوں نے اپنی انتخابی مہموں میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے نسلی سبقت کے تصور کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ کارل لوئيگر (1844 – 1910) ایک ایسا سیاست دان تھا۔ وہ سام دشمنی کے ذریعے سے ہی صدی کے اواخر میں آسٹریا کے شہر ویانا کا ناظم بن گیا – اس نے یہودیوں کو مشکل معاشی وقتوں کا ذمہ دار ٹھہرا کر ووٹوں کی درخواست کی۔ لوئيگر 1889 میں آسٹریا میں پیدا ہونے والے ایڈولف ہٹلر نامی ایک نوجوان کا ہیرو تھا۔ ہٹلر کے خیالات کو، جن میں اس کے یہودیوں کے متعلق نظریے بھی شامل تھے، وینا میں گزارے گئے وقت کے دوران پروان چڑھایا گیا جہاں اس نے لوئيگر کی حکمت عملیاں اور لمبے اقتدار کے دوران پھیلنے والے سام دشمن اخبارات اور کتابچوں کا مطالعہ کیا۔

اہم تواریخ

1890 کی دہائی
ایک من گھڑت یہودی سازش

فرانس میں روس کی خفیہ پولیس کے ایک اہلکار نےزیون کے بڑوں کے پروٹوکولز تیار کئے۔ پروٹوکولز میں یہ دعوی کیا گيا ہے کہ یہودی پوری دنیا پر قبضہ کرنے کی سازش کررہے ہيں۔ ان جعلی دستاویزات کو عالمی یہودی لیڈروں کی ایک مفروضہ میٹنگ کے منٹس کے طور پر پیش کیا گیا ہے جن میں انہوں نے پوری دنیا پر قابض ہونے کے منصوبوں کو حتمی شکل دی اور ان میں یہ تاثر دیا گيا ہے کہ یہودی خفیہ تنظیموں اور ایجنسیوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں، معیشت، اخبارات اور عوامی رائے کو کنٹرول کرنا اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ پروٹوکولز کو دنیا کے مختلف ممالک میں شا‏ئع کیا گیا ہے جن میں ریاستہائے متحدہ امریکہ بھی شامل ہے اور اسے سام دشمنوں نے یہودی سازش کے دعووں کو تقویت دینے کے لئے استعمال کیا ہے. 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں پروٹوکولز کو نازی پارٹی کے سام دشمن نظریے اور پالیسیوں کے لئے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے استعمال کیا گيا ہے۔

1894
ڈریفس کے مسئلے کی وجہ سے فرانس میں تقسیم

فرانسیسی فوج کے ایک یہودی افسر کو گرفتار کرکے ان پر جرمنی کو فرانس کے قومی دفاع سے تعلق رکھنے والی دستاویزات دینے کا غلط الزام لگایا گیا۔ فوجی عدالت کے سامنے ایک مختصر مقدمے میں ڈریفس کو غدار ثابت کردیا گیا اور اسے فرانسیسی گویانا کے ساحل پر واقع ڈيولز آئی لینڈ پر عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ اس کیس کی وجہ سے فرانسیسی قوم دو مخالف گروہوں میں تقسیم ہوگئی: ایک گروہ ان افراد پر مشتمل تھا جو ڈریفس کو قصوروار مانتے تھے (یعنی روایت پسند، قوم پرست اور سام دشمن) اور دوسرا ان افراد پر مشتمل تھا جن کا اصرار تھا کہ ڈریفس کا مقدمہ انصاف کے ساتھ ہونا چاہئیے (یعنی آزاد خیال اور دانشور) 1899 میں ڈریفس پر دوبارہ مقدمہ چلایا گیا لیکن اسے فوجی عدالت نے دوبارہ قصور وار ٹھہرا دیا۔ تاہم فرانسیسی جمہوریہ کے صدر نے مداخلت کرتے ہوئے اُنہیں معافی دے دی۔ پہلی عالمی جنگ سے کچھ عرصہ قبل ڈریفس کو ایک شہری عدالت نے باعزت بری کردیا۔ ڈریفس کے معاملے سے متعلق تنازعے سے فرانس کے افسروں کے دستوں اور دوسرے روایت پسند فرانسیسی گروپوں میں پوشیدہ سام دشمنی جھلکتی ہے۔

اپریل 1897
کارل لوگر، ویانا کا ایک سام دشمن میئر

کارل لوگر کو ویانا کا میئر منتخب کر لیا گيا۔ اس نے 1910 میں وفات پانے تک تیرہ برس تک یہ عہدہ سنبھالا۔ لوگر عیسائی اشتراکی پارٹی کا شریک بانی تھا اور اُس نے معاشی سام دشمنی کا استعمال کرکے آسٹریا کے صنعتی انقلاب کے دوران سرمایہ داری کے شکار چھوٹے کاروباروں کے مالکان اور مزدوروں کی حمایت حاصل کی۔ اس نے دعوی کیا کہ یہودیوں کا سرمایہ داری پر تنہا تسلط ہے لہذا وہ معاشی میدان میں غیرمنصفانہ طریقے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل میں دوسری دائیں بازو کی پارٹیوں نے اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے اس قسم کی سام دشمنی کا استعمال کیا۔ ایڈولف ہٹلر جو لوگر کے اقتدار کے دوران ویانا میں قیام پذیر تھا، وہ لوگر کی سام دشمنی اور اس کی عوامی حمایت حاصل کرنے کی قابلیت سے کافی متاثر ہوا۔ لوگر کے خیالات 1920 کی دہائی کے جرمنی میں نازی پارٹی کے منشور میں نظر آتے ہيں۔