میونخ معاہدے کے بعد اور چیک کی طرف سے سوڈیٹین لینڈ کو جرمنی کے حوالے کرنے کے بعد جرمن حکام نے سوڈیٹین لینڈ کے علاقے پوھوریلک کے یہودی شہریوں کو ملک بدر کر کے چیکوسلواکیہ کی طرف دکھکیل دیا۔ چیک حکومت نے مہاجرین کے ایک سیلاب کی متوقع آمد کے پیشِ نظر اُنہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً یہودی مہاجرین جرمنی سے ملحقہ چیک سرحدی علاقے میں برونو اور براٹسلاوا کے غیر وابستہ علاقے میں ایک کیمپ کے اندر رہنے پر مجبور ہو گئے۔
آئٹم دیکھیںفرانس کے شہر ایویان کے رائل ہوٹل میں 6 جولائی سے 15 جولائی 1938 کو 32 ملکوں کے سیاسی وفود جمع ہوئے تاکہ وہ یہودی ہجرت کے مسئلے پر بات چیت کر سکیں۔ جرمنی میں موجود پناہ گزیں نازیوں کے ظلم و ستم سے بچ کر بھاگنے کی لئے بے چین تھے لیکن وہ کسی دوسرے ملک میں آباد ہونے کی اجازت حاصل کئے بغیر جرمنی چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ ایویان کانفرنس کے نتیجے میں اکثر شریک ملکوں کی ہجرت کی پالیسیوں میں کوئی خاص قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ امریکہ، برطانیہ عظمیٰ اور فرانس جیسی بڑی طاقتوں نے آسان ہجرت کی پالیسی کی مخالفت کی۔ اُنہوں نے یہ واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن یہودی ہجرت کے مسئلے کو آسان کرنے کیلئے کوئی سرکاری قدم اُٹھانا نہیں چاہتے۔
آئٹم دیکھیںجنگ کے بعد بچ جانے والے مشرقی یورپ کے 250,000 کے لگ بھگ یہودیوں کو فلسطین پہنچانے کے مقصد سے بے دخل افراد کے کیمپوں اور مغربی علاقوں میں بھیجنے کے عمل کو بریہا (پرواز) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں، یہودی پناہ گذیں غیر قانونی طور پر اٹلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کا مقصد شاید فلسطین جانے کیلئے ایک جہاز چارٹر کرنا تھا۔ برطانیہ نے یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی کو محدود کر دیا اور "غیر قانونی" تارکینِ وطن کو ڈی پورٹ کر کے قبرص کے حراستی کیمپ میں بھیج دیا۔
آئٹم دیکھیںکئیلٹسے پولینڈ میں جولائی 1946 میں ایک منظم قتل عام ہوا۔ بیالیس یہودی قتل کر دئے گئے اور تقریبا 50 زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ اس اجتماعی ہجرت کا سبب بنا جس میں لاکھوں یہودی پولینڈ اور مرکزی و مشرقی یورپ سے ہجرت کرگئے۔ اس کلپ میں یہودی پناہ گزینوں کو دکھایا گیا ہے جو منظم قتل عام سے بچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یہ لوگ پولینڈ چھوڑ کر چیکوسلواکیہ میں داخل ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
آئٹم دیکھیںدوسری جنگ عظیم کے بعد، اتحادیوں نے لاکھوں بے دخل افراد (ڈی پی) کو اُن کے آبائی وطنوں میں دوبارہ آباد کرا دیا۔ تاہم لاکھوں افراد جن میں ڈھائی لاکھ سے زائد یہودی پناہ گذیں بھی شامل تھے، واپس نہیں جا سکتے تھے یا جانا نہیں چاہتے تھے۔ بیشتر یہودی یورپ چھوڑ کر فلسطین یا امریکہ جانا چاہتے تھے۔ اقوام متحدہ کا ریلیف اور بحالی کے ادارے (یو این آر آر اے) نے اُنہیں مقبوضہ جرمنی اور آسٹریہ کے کیمپوں میں اُس وقت تک رکھا جب تک اُنہیں دوبارہ آباد کیا جا سکے۔ یہاں یہودی بے دخل افراد اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہوئے اُنہیں بعد میں فلسطین ہجرت کرنے کے حوالے سے تیار کر رہے ہیں۔
آئٹم دیکھیںدوسری جنگ عظیم کے بعد، اتحادیوں نے لاکھوں بے دخل افراد (ڈی پی) کواُن کے آبائی وطنوں میں دوبارہ آباد کرا دیا۔ تاہم لاکھوں افراد جن میں ڈھائی لاکھ سے زائد یہودی بھی شامل تھے، واپس آباد نہیں ہو سکے یا پھر ہونا نہیں چاہتے تھے۔ بیشتر یہودی بے دخل افراد یورپ چھوڑ کر فلسطین یا امریکہ جانے کو ترجیح دے رہے تھے۔ اتحادیوں نے اُنہیں جرمنی کے ایک کیمپ میں اُس وقت تک رکھا جب تک کہ وہ دوبارہ آباد ہو سکیں۔ یہاں یہودی صیہونی جرمنی میں بے دخل افراد کے ذیل شائیم کیمپ میں مسلسل نظر بند رکھے جانے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ اُنہیں فلسطین ہجرت کرنے کی اجازت دی جائے۔
آئٹم دیکھیںدوسری جنگ عظیم کے اختتام پر، یورپ میں اتحادی قوتوں نے جرمنی سے لاکھوں بے دخل ہونے والے لوگوں(DPs) کو واپس بھیج دیا۔ باقی رہ جانے 15 سے 20 لاکھ بے دخل لوگوں (DPs) نے، جن میں یہودی اور غیر یہودی دونوں قسم کے لوگ شامل تھے، اپنے جنگ سے پہلے کے گھروں کو واپس لوٹنے سے یا تو انکار کر دیا یا تو وہ لوٹنے کے قابل نہیں تھے۔ امیگریشن کی پابندیوں نے ان پناہ گزینوں کو دوسرے یورپی ملکوں اور ریاستہائے متحدہ امریکہ ہجرت کرنے سے باز رکھا۔ یہ لوگ مقبوضہ جرمنی میں اُس وقت تک موجود رہے جب تک کہ اُنہوں نے دوسرے ملکوں میں آباد ہونے کا انتظام نہیں کر لیا۔ اس فوٹیج میں، جو کہ جنگ کے چار سال بعد بنائی گئی، میونخ میں موجود بے گھر لوگ اپنے سامان باندھ کر امریکہ جانے کیلئے ہوائی جہاز میں سوار ہو رہے ہیں۔
آئٹم دیکھیںWe would like to thank Crown Family Philanthropies and the Abe and Ida Cooper Foundation for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of all donors.