ڈورا انگر
پیدا ہوا: 7 جنوری، 1925
ایسن, جرمنی
ڈورا، اس کے والدین، بھائی، چچی، چچا اور دو کزن ایک ساتھ ایسن جرمنی میں اس کے دادا کے گھر میں رہتے تھے۔ انگر خاندان یہودی عقیدے کا پابند تھا اور جب ڈورا 8 سال کی تھی تو وہ باقاعدگی سے برٹ ھانوار نامی ایک مذہیی نوجوانوں کی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کرنے لگی۔
1933-39: اکتوبر 1938 میں ایک استانی نے آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں سے بلدیاتی پول میں میرے پاس آ کر کہا کہ "یہودیوں کو یہاں تیرنے کی اجازت نہیں ہے"۔ کچھ ہفتوں بعد ہی 9 نومبر کو یہودیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کی جائداد کو تباہ کر دیا گیا۔ ایک پڑوسی نے ہمیں بچانے کی کوشش کی لیکن رات کو جب ہمارا خاندان ایک دوسرے کے ساتھ سمٹا ہوا تھا، نازیوں نے ہمارے گھر کو پہچان لیا۔ اچانک ایک کلہاڑی کھڑکی توڑ کر میرے سر کے قریب آ کر لگی۔ کچھ دن بعد ہم نیدرلیڈ کی طرف فرار ہو گئے۔
1940-45: ایمسٹرڈیم میں پناہ گزينوں کی حیثیت سے میرے والدین کو کام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس لئے وہ میری اور میرے بھائی کی کفالت نہ کر سکے ۔ مجھے ایک یہودی امدادی تنظیم کے ذریعے بیوئرگرویشیئس بھیج دیا گیا۔ یہ ایک یتیم خانہ تھا جس میں 80 یہودی پناہ گزین بچے تھے۔ مئی 1940 میں جب جرمنوں نے نیدرلینڈ پر حملہ کیا، ایک ڈچ عورت ماما وسموئلر،جو ھزاروں بچوں کے انگلینڈ جانے کا انتظام کر کے اُن کے بچاؤ کا اہتمام کرتی تھی، آئی اور ہم سب کو تیار ہونے کیلئے کہا۔ ہمیں بس کے ذریعے بحری جہازوں کے ایک عرشے تک لے جایا گيا جہاں ہمیں بوڈن گریون نامی ایک کشتی میں سوار کرا دیا گيا۔
ڈورا نے جنگ کا باقی عرصہ انگلینڈ میں گزارا۔ اس کے والدین اور بھائی کو سوبیبور اور آش وٹز کے کیمپ میں ہلاک کر دیا گیا۔ سن 1946 میں ڈورا نے اسرائیل ہجرت کر لی۔