مورس ایک بہت ہی مذہبی یہودی گھرانے میں پلے بڑھے اور وہ صیہونی اسپورٹس لیگ کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ جب جرمنی نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کیا تو مورس کا قصبہ بری طرح تباہ و برباد ہوگیا۔ مورس کا خاندان یہودی بستی میں رہنے پر مجبور ہو گیا اور مورس کو جبری مشقت پر لگا دیا گیا۔ پرذیڈ بورز سے کوئی تیس میل دور قصبے کونسکئے میں کچھ عرصہ قید کاٹنے کے بعد مورس کو آش وٹز کیمپ پھجوا دیا گیا۔ اُنہیں آش وٹز کے ذیلی کیمپ جاویشووٹز میں رکھا گیا۔ جنوری 1945 میں مورس کو موت کے مارچ کیلئے مجبور کر دیا گیا اور اُنہیں پہلے بوخن والڈ کے ذیلی کیمپ ٹروئے گلٹز بھیجا گیا اور پھر تھیریسئن شٹٹ بھجوا دیا گیا۔ جنگ کے بعد وہ کچھ عرصہ چیکوسلواکیہ اور جرمنی میں رہے اور پھر ترک وطن کر کے امریکہ چلے آئے۔
جہاں تک مجھے یاد ہے، ابتداء ہی سے جرمنی نے ایک سرکاری عہدہ قائم کیا جس کی نگرانی میں چھوٹا شہر ہوتا تھا۔ اسے کومیسار کہا جاتا تھا۔ کومیسار نے ہمیں طلب کیا اور اُس نے ہم سے کہا کہ ہم میں سے 13 سے لیکر 50 سال کی عمر کے ہر شخص کو مزدوری کرنی ہو گی۔ ہمیں ہر روز کچھ نہ کچھ کام کرنے کے لئے جانا پڑتا تھا۔ ہم یہودی کلٹرگیمائنڈے [کمیونٹی مرکز] میں جایا کرتے تھے۔ وہاں ہمیں زیادہ تر صفائی، پرانی اینٹوں کو لانے اور صفائی کرنے جیسے کاموں پر لگایا جاتا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا-- لیکن شام کو ہمیں گھر واپس جانے کی اجازت دے دی جاتی تھی۔ بعد میں انھوں نے مجھے اور میرے ہم عمروں کو شہر سے باہر اشٹائنبرخ [پتھر توڑنے] پر مقرر کیا۔ ہم پتھروں کی کان میں جایا کرتے تھے۔ ہم پتھر توڑتے اور وہ پتھر نئی سڑکیں بنانے کے لئے لائے جاتے۔ وہ نئی سڑکیں تعمیر کر رہے تھے۔ پتھر توڑنے کا کام بہت ہی سخت ہوتا تھا۔ لیکن چونکہ میں اس وقت صحت مند اور جوان تھا لہذا میں نے اپنے آپ کو اس کام کے لئے ڈھال لیا اور اپنے کام کو سرانجام دیا۔
We would like to thank Crown Family Philanthropies, Abe and Ida Cooper Foundation, the Claims Conference, EVZ, and BMF for supporting the ongoing work to create content and resources for the Holocaust Encyclopedia. View the list of donor acknowledgement.