این فرینک
این فرینک اُن ایک ملین سے زائد یہودی بچوں میں سے ایک تھیں جو ہالوکاسٹ کے دوران ہلاک کر دئے گئے تھے۔ وہ 12 جون 1929 کو انیلیز میری فرینک Annelies Marie Frank کے نام سے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد اوٹو Ottoاور والدہ ایڈتھ فرینک Edith Frank تھیں۔
اپنی زندگی کے پہلے پانچ سالوں کے دوران این فرینکفرٹ کے مضافاتی علاقے کے ایک اپارٹمنٹ میں اپنے والدین اور بڑی بہن مارگوٹ Margot کے ساتھ رہیں۔ 1933 میں نازیوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اوٹو فرینک فرار ہو کر ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم پہنچ گئے جہاں اُن کے کاروباری رابطے موجود تھے۔ بعد میں فرینک خاندان کے باقی افراد بھی وہاں پہنچ گئے۔ سب سے آخر میں این کچھ عرصہ اپنے دادا دادی کے ساتھ آچن میں ٹھہرنے کے بعد فروری 1934 میں ایمسٹرڈیم پہنچیں۔
مئی 1940 میں جرمنوں نے ایمسٹرڈیم پر قبضہ کر لیا۔ جولائی 1942 میں جرمن حکام اور اُن کے ڈچ اتحادیوں نے یہودیوں کو تمام ہالینڈ سے نکال کر ویسٹربورک میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ یہ ڈچ قصبے آسن کے قریب ایک عارضی کیمپ تھا جو جرمن سرحد سے زیادہ دور نہیں تھا۔ پھر ویسٹر بورک سے جرمن حکام نے یہودیوں کو آشوٹز برکینو Auschwitz- Birkenau اور سوبیبور Sobibor میں پہنچا دیا جو جرمن مقبوضہ پالینڈ میں واقع تھے۔
جولائی کے پہلے ہفتے کے دوران این اور اُن کا خاندان ایک اپارٹمنٹ میں چھپے رہے جہاں بعد میں چار ڈچ یہودیوں نے بھی خفیہ طور پر پناہ حاصل کی۔ اِن کے نام ہرمین، اگسٹ ، پیٹر وین پیلز اور فرٹز فیفر تھے۔ یہ لوگ دو سال تک مالک مکان کے خاندانی کاروبار کے دفترواقع 263 پرنسنگرافت سٹریٹ کے عقبی حصے میں ایک خفیہ کمرے میں بند رہے۔ این نے اپنی ڈائری میں اِس کمرے کا ذکر خفیہ انیکسی کے طور پر کیا ہے۔ اوٹو فرینک کے دوستوں اور ساتھیوں جوہنز کلیمنز، وکٹر کوگلر، جین گیز اور مئیپ گیز نے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے اُن کیلئے چھپنے کی یہ جگہ تیار کی اور پھر فرینک خاندان کیلئے خوراک اور کپڑے خفیہ طور پر وہاں پہنچاتے رہے۔ 4 اگست 1944 کو جرمنی کی خفیہ پولیس گسٹاپو نے ایک ڈچ شہری کی مخبری پر اِس خفیہ جگہ کا پتہ لگا لیا۔
اُسی روز گسٹاپو کے ایک اہلکار ایس ایس سارجنٹ کارل سلبر بوئر اور اُس کے دو ڈچ پولیس ساتھیوں نے فرینک خاندان کو پکڑ لیا۔ گسٹاپو نے اُنہیں 8 اگست کو ویسٹربورک بھجوا دیا۔ اِس کے ایک ماہ بعد ستمبر 1944 میں ایس ایس اور پولیس حکام نے فرینک خاندان اور اُن کے ساتھ چھپنے والے دوسرے چار افراد کو ویسٹربورک سے ریل گاڑی کے ذریعے جرمن مقبوضہ پولینڈ میں واقع آشوٹز کےعقوبتی کیمپ روانہ کر دیا۔ نوجوان ہونے کی وجہ سے این اور اُن کی بہن مارگوٹ کو مزدوری کیلئے منتخب کر کے اکتوبر 1944 میں برجن بیلسن عقوبتی کیمپ بھجوا دیا گیا جو شمالی جرمنی میں Celle کے قریب تھا۔
مارچ 1945 میں دونوں بہنیں ٹائفس بخار میں مبتلا ہو کر موت کا شکار ہو گئیں۔ اُن کی موت کے چند ہی ہفتوں بعد برطانوی فوجیوں نے 15 اپریل 1945 کو برجن بیلسن کیمپ کو آزاد کرا لیا۔ ایس ایس حکام نے این کے والدین کو بھی جبری مشقت کیلئے منتخب کیا تھا۔ این کی والدہ ایڈتھ کا جنوری 1945 میں آشوٹز میں انتقال ہوا۔ صرف این کے والد اوٹو جنگ میں زندہ بچے۔ سوویٹ فوجیوں نے 27 جنوری 1945 کو اوٹو کو آشوٹز کیمپ سے آزاد کرایا۔
این نے اپنے چھپنے کے زمانے میں ایک ڈائری لکھی جس میں اپنے خوف، اُمیدیں اور تجربے رقم کئے۔ خاندان کی گرفتاری کے بعد یہ ڈائری اک خفیہ خانے سے ملی۔ این کی یہ ڈائری فرینک خاندان کو چھپنے میں مدد دینے والے افراد میں سے ایک مئیپ گیز نے حفاظت سے رکھا ہوا تھا۔ جنگ کے بعد اسے کئی زبانوں میں شائع کیا گیا اور اسے یورپ اور امریکہ کے ہزاروں مڈل اور ہائی اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ این فرینک اُن بچوں کے گمشدہ عہد کی علامت بن گئی ہیں جو ہالوکاسٹ کے دوران مارے گئے تھے۔