آشوٹز حراستی کیمپ نازی حکومت کی طرف سے قائم کیا جانے والا سب سے بڑا کمپلکس تھا۔ اس میں تین بنیادی کیمپ شام تھے، جن کے تمام قیدیوں کو جبری مشقت کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ایک کیمپ قتل کے مرکز کے طور پر بھی کام کرتا تھا۔ اس کمپلکس کی تعمیر مئی 1940 میں پولینڈ سے تقریباً 37 میل مغرب میں واقع مقام کراکاؤ میں شروع ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق ایس ایس اور جرمن پولیس نے 1940 اور 1945 کے درمیان کم از کم 13 لاکھ افراد کو جلاوطن کرکے آشوٹز پہنچایا۔ ان میں سے کیمپ کے حکام نے 11 لاکھ کو ہلاک کر دیا۔

آشوٹز دوم یا آشوٹز برکیناؤ کی تعمیر اکتوبر 1941 میں شروع ہوئی۔ تینوں کیمپوں میں سے قیدیوں کی سب سے زیادہ تعداد آشوٹز برکیناؤ میں ہی موجود تھی اور یہاں قتل کی مرکز کی شہولتیں بھی موجود تھیں۔ اس کیمپ نے یورپی یہودیوں کے قتل عام سے متعلق جرمن منصوبے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہاں قتل عام کیلئے زائکلون بی گیس استعمال کی گئی۔ بعد میں یہاں مارچ سے جون 1943 کے دوران لاشیں جلانے کی بھٹیوں پر مشتمل چار عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ ان میں سے ہر ایک کے تین حصے تھے: لباس اتارنے کی جگہ، ایک بڑا گیس چیمبر اور لاشیں جلانے کی بھٹیاں۔ ایس ایس نے آشوٹز برکیناؤ میں گیس سے ہلاک کرنے کی کارروئیاں نومبر 1944 تک جاری رکھیں۔

سن 1942 سے 1944 کے موسم گرما کے آخر تک یورپ میں جرمن مقبوضہ یا جرمنی سے الحاق شدہ ہر ملک سے یہودی سے بھری ہوئی ریل گاڑیاں آشوٹز برکناؤ پہنچتی رہیں۔ مجموعی طور پر تقریباً 11 لاکھ یہودیوں کو آشوٹز جلاوطن کیا گیا۔ ایس ایس اور پولیس حکام نے مذید دو لاکھ کے لگ بھگ افراد کو آشوٹز جلاوطن کیا جن میں 140,000 سے 150,00 تک غیر یہودی پولش شہری، 23 ھزار روما (خانہ بدوش) اور 15 ہزار سوویت جنگی قیدی شامل تھے۔

آشوٹز برکیناؤ پہنچنے والوں کو ایک انتخاب کے عمل سے گزارا جاتا تھا۔ ایس ایس کا عملہ بیشتر افراد کو مشقت کیلئے غیر موذوں قرار دے کر فوراً اُنہیں گیس چہمبرون کی طرف روانہ کر دیتا تھا جن کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ وہ غسل خانے ہیں۔ آزوٹز میں کم سے کم 9 لاکھ 60 ھزار یہودیوں کو ہلاک کیا گیا۔ ان کے علاوہ 74 ہزار پولش، 21 ہزار روما (خانہ بدوش)، 15 ہزار سوویت جنگی قیدیوں اور 10 سے 15 ہزار دیگر قومیتیں رکھنے والے افراد کو بھی موت کے گھاٹ اُتارا گیا جن میں چیک، یوگوسلاوین، فرانسیسی، جرمن اور آسٹرین افراد شامل ہیں۔

آشوٹز ثوم جسے بونا یا مونووٹز بھی کہا جاتا تھا، 1942 میں قائم کیا گیا۔ اس کا مقصد قیدیوں کو جرمن گروپ آف کمپنیز آئی جی فاربین کے زیر ملکیت ربر ورکس میں جبری مشقت کیلئے روانہ کرنا تھا۔ 1942 اور 1944 سے پہلے آشوٹز میں ایس ایس حکام نے 39 ذیلی کیمپ بھی قائم کئے۔ یہاں کے قیدیوں کو کوئلے کی کانوں اور اسلحہ ساز فیکٹریوں میں کام پر مجبور کیا گیا۔ بعض قیدیوں کے بائیں بازو پر شناختی نمبر ٹیٹو کر دیا گیا تھا۔ اگر ایس ایس کے اہلکار سمجھتے کہ کوئی قیدی بہت کمزور ہے اور جبری مشقت کا اہل نہیں رہا تو اسے آشوٹز برکناآ بھج کر قتل کروا دیا جاتا۔

وسط جنوری 1945 کو جب سوویت فوجیں قریب پہنچ گئیں، ایس ایس نے بقیہ گیس کی تنصیبات تباہ کر دیں اور آشوٹز کو خالی کرنا شروع کر دیا۔ ایس ایس گارڈز نے تقریباً 60 ہزار قیدیوں کو مغرب کی طرف مارچ کرنے پر مجبور کر دیا اور جو شخص بھی پیچھے رہ جاتا، اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا۔ قیدی بھوک اور موسمی حالات سے بھی نڈھال ہوتے رہے اور 15 ہزار کے لگھ بھگ افراد ان کیمپوں کے انخلاء اور مارچوں کے دوران ہلاک ہو گئے۔ انخلاء سے پہلے بھی ہراروں قیدیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ سوویت فوج 27 جنوری 1945 کو آشوٹز میں داخل ہو گئی اور اس نے تقریباً 7 ہزار قیدیوں کو آزاد کرایا جن میں سے بیشتر بیمار اور قریب المرگ تھے۔