جرمن فوجی حکام نے برجن بیلسن کیمپ 1940 میں برجن اور بیلسن کے چھوٹے قصبوں کے جنوب میں قائم کیا۔ یہ جرمنی کے شہر سیلے کے شمال میں 11 میل دور تھا۔ برجن بیلسن کمپلکس بہت سے کیمپوں پر مشتمل تھا جو اس کے وجود کے دوران مختلف وقتوں میں قائم کئے گئے۔ وہاں تین بنیادی کیمپ تھے: جنگی قیدیوں کا کیمپ، "رہائشی کیمپ" اور "قیدیون کا کیمپ"۔ برجن بیلسن کیمپ 1943 تک جنگی قیدیوں کا کیمپ ہی تھا۔ اپنے وجود کے دوران برجن بیلسن کمپلکس میں یہودیوں، سیاسی قیدیوں، روما (خانہ بدوشوں)، مجرموں، یہووا کے گواہان اور ہم جنس پرستوں کو رکھا گیا۔

اتحادی افواج نے جب 1944 کے آخر میں اور 1945 کے شروع میں پیش قدمی شروع کی تو برجن بیلسن اُن ھزاروں یہودی قیدیوں کو اکٹھا کرنے کا کیمپ بن گیا جنہیں جنگی محاذوں کے قریب موجود کیمپوں سے نکالا گیا تھا۔ وہاں پہنچنے والے ھزاروں نئے قیدیوں میں سے بیشتر زندہ بچ جانے والے ایسے قیدی تھے جنہیں جبری طور پر پیدل وہاں سے نکالا گیا۔ ان افراد کے آنے سے برجن بیلسن میں موجود محدود سہولتوں پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا۔

کیمپ میں بہت زیادہ بھیڑ، نکاسی آب کی خراب صورت حال اور خوراک، پانی اور پناہ کی ناکافی دستیابی کی وجہ سے 1945 کے آغاز میں ٹائفس، تب دق اور پیچش جیسی بیماریاں پھیلنے لگیں۔ اس سال کے پہلے چند ماہ کے دوران دسیوں ھزاروں قیدی موت کا شکار ہو گئے۔ برطانوی فوجوں نے 15 اپریل 1945 کو برجن بیلسن کو آزاد کرا لیا۔ برطانوی فوجیوں نے کیمپ میں 60 ھزار قیدیوں کو پایا جن میں سے بیشتر شدید بیماری کی حالت میں تھے۔ ھزاروں افراد کی لاشیں کیمپ کی زمین پر پڑی ہوئی تھیں جنہیں دفنایا نہیں گیا تھا۔ 13000 سے زائد سابق قیدی اس قدر بیمار تھے کہ ٹھیک نہ ہو سکے اور آزادی کے بعد انتقال کر گئے۔ برجن بیلسن سے لوگوں کے انخلاء کے بعد برطانوی فوجیوں نے کیمپ کو جلا ڈالا تاکہ ٹائفس کی بیماری پھیلنے نہ پائے۔

کیمپ کے قیام کے دوران برجن بیلسن کمپلکس میں 50,000 افراد ہلاک ہو گئے جن میں این فرینک بھی شامل تھیں۔ کیمپ کو آزاد کرانے کے بعد برطانوی قابض فوجوں نے اس کے قریب ہی بے دخل افراد کیلئے ایک کیمپ قائم کیا جس میں زندہ بچ جانے والے 12,000 کو رہائش فراہم کی گئی۔