مارچ 1933 میں قائم ہونے والا ڈاخاؤ حراستی کیمپ جنوبی جرمنی میں واقع میونخ کے شمال مشرق سے 10 میل کے فاصلے پر تھا۔ کیمپ کے ابتدائي قیدیوں میں جرمن کمیونسٹ، سوشل ڈیموکریٹ، ٹریڈ یونینسٹ یہووا کے گواہان, روما (خانہ بدوش), ہم جنس پرست اور جرائم پیشہ افراد شامل تھے۔ کرسٹل ناخٹ (10 سے 11 نومبر 1938) کے بعد ڈاخاؤ میں یہودی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ اس وقت وہاں 10000 سے زيادہ یہودی مرد قید تھے۔ 1933 اور 1945 کے درمیان ڈاخاؤ میں قید ہونے والے افراد کی تعداد 188000 سے تجاوز کر گئی۔ جنوری 1940 اور مئی 1945 کے درمیان کیمپ اور ذیلی کیمپوں میں جاں بحق ہونے والے قیدیوں کی تعداد کم از کم 280000 تھی، جس میں 1933 سے 1939 کے اختتام تک وہاں ختم ہونے والے افراد کی تعداد شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ ڈاخاؤ میں ختم ہونے والے افراد کی کل تعداد معلوم ہونے کا کوئی امکان نہيں ہے۔ ڈاخاؤ کیمپ ایس ایس حراستی کیمپ کے سپاہیوں کے لئے ایک تربیتی مرکز بھی تھا اور کیمپ کی تنظیم اور روٹین تمام نازی حراستی کیمپوں کے لئے نمونہ ثابت ہوئی۔

ڈاخاؤ میں جرمن ڈاکٹروں نے قیدیوں پر طبی تجربات بھی کئے جن میں ڈیکمپریشن چیمبر کے ذریعے اونچائی کے تجربات، ملیریا اور تپ دق کے تجربات، ہائپوتھرمیہ کے تجربات اور نئی ادویات کی جانچ کے تجربات شامل تھے۔ ان تجربات کے نتیجے میں سینکڑوں قیدیوں کی موت واقع ہوئی یا وہ مستقل طور پر معذور ہو گئے۔ ڈاخاؤ کے قیدیوں کو کیمپ کی کارروائیوں، تعمیراتی پراجیکٹ اور چھوٹی دستکاری کی صنعتوں میں جبری مشقت کیلئے بھی استعمال کیا گيا۔ ڈاخاؤ کے 30 سے زيادہ بڑے ذیلی کیمپ تھے جس میں 30000 سے زيادہ قیدی جرمن فوج کے لئے اسلحہ سازی کے شعبے میں کام کرتے تھے۔ ہزاروں قیدیوں کی کام کے دوران موت بھی واقع ہو گئی۔ 1945 میں مشرق سے خالی کئے جانے والے کیمپوں سے قیدیوں کی بڑی تعداد میں ڈاخاؤ پہنچنے کے بعد ٹائفس کی وبا ایک سنگین مسئلہ بن گئی۔ 29 اپریل 1945 کو امریکی فوجوں نے ڈاخاؤ کو آزاد کرا دیا۔ جیسے وہ کیمپ کے قریب پہنچے، انہيں لاشوں سے بھری ہوئی 30 سے زيادہ ریل گاڑیاں ملیں۔