اگرچہ یہودی نازیوں کی نفرت کا مرکزی نشانہ تھے، ظلم و ستم ان تک محدود نہيں تھا۔ دوسرے افراد اور گروپوں کو "غیرپسندیدہ" اور "ریاست کے دشمن" سمجھا جاتا تھا۔ سیاسی مخالفین کا منہ بند کرنے کے بعد نازیوں نے دیگر"باہر والوں" کے خلاف دہشت گردی میں اضافہ کردیا۔

یہودیوں کی طرح روما (خانہ بدوشوں) کو بھی نازيوں نے "غیر آرین" اور نسلی طور پر "حقیر" قرار دیکر نشانہ بنایا۔ روما جرمنی میں پندرہویں صدی سے تھے اور وہ صدیوں سے تعصب کا سامنہ کرتے آرہے تھے۔ وہ 1933 سے کافی عرصہ قبل سرکاری امتیاز کا نشانہ بنتے رہے۔ نازیوں کے تحت بڑے شہروں میں رہنے والے رومانی (خانہ بدوشوں) کے خاندانوں کو جمع کرکے ان کی انگلیوں کے نشانات اور تصویریں لی گئيں اور انہیں پولیس کی نگرانی میں خاص کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا گيا۔

ایک چھوٹے عیسائی گروپ کے ممبران یعنی یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں کو بھی ان کی نسل کے بجائے ان کے عقائد کی بنا پر نشانہ بنایا گيا۔ ان افراد کے عقائد میں انہیں فوج میں بھرتی ہونے یا کسی جھنڈے کو سلامی پیش کرنے یا پھر نازی جرمنی میں "جئے ہٹلر" کی سلامی میں ہاتھ اٹھا کر کسی حکومت کی اطاعت ظاہر کرنے کی ممانعت تھی۔ ہٹلر کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں کو حراستی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ جو آزاد رہ گئے، وہ اپنی ملازمتوں، بے روزگاری اور سوشل ویلفئر کی مراعات اور تمام شہری حقوق سے محروم ہوگئے۔ تاہم اس عقیدے کے پیروکار آپس میں ملاقاتیں کرتے رہے، اپنے عقیدے کا پرچار کرتے رہے اور مذہبی کتابچے تقسیم کرتے رہے۔

نازیوں نے ہم جنس پرستوں کو انکے اعمال کی وجہ سے نشانہ بنایا۔ نازی ہم جنسی تعلقات کو "غیرفطری" اور "غیرمردانہ" سمجھتے تھے کیونکہ ان تعلقات کے نتیجے میں اولاد نہیں پیدا ہوتی تھی۔ ان کی وجہ سے نازیوں کی "آریائی" نسل بڑھانے کی پالیسیاں خطرے میں پڑ جاتی تھیں۔ ہٹلر کے اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد اسٹارم ٹروپرز (ایس اے) نے ہم جنس پرستوں کے کلبوں پر چھاپے مارنے شروع کردئے۔ کئی ہم جنس پرستوں کو گرفتار کرکے حراستی کیمپوں میں قید کردیا گيا۔ اس گروپ میں درجنوں کم عمر نوجوان بھی شامل تھے۔

اہم تواریخ

24 جون 1933
پرشیا میں یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں پرپابندی

جرمنی کی سب سے بڑی ریاستی حکومت پرشیا کی نازی حکومت نے یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں پر پابندی لگا دی۔ اُنہوں نے "جئے ہٹلر" کا نعرہ لگانے اور 1935 سے جرمن فوج میں ملازمت کرنے سے انکار کردیا۔ نازیوں نے 1936 میں یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں شروع کردیں۔ ان میں سے کئی افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کردیا گیا اور وہ تقریبا ہر بڑے کیمپ میں موجود تھے۔ عمومی طور پر یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں نے اپنے عقائد چھوڑنے سے انکار کردیا باوجود اس بات کے کہ اپنے عقائد چھوڑنے سے متعلق اعلان پر دستخط کر دینے سے اُنہیں آزادی مل سکتی تھی۔

28 جون 1935
نازیوں نے ہم جنس پرستی کے خلاف قانون کو سخت کردیا

نازیوں نے جرمن ہم جنس پرستوں پر ظلم و ستم روا رکھنا شروع کر دیا کیونکہ اُنہیں جرمن قوم کے تحفظ کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔ 28 جون 1936 کو نازی حکومت نے جرمن سزائوں کے کوڈ کے پیراگراف 175 کو مزید سخت کردیا جس کے تحت ہم جنس پرستوں کے درمیان محض دوستی بھی جرم تھی۔ "پرانے عادی" ہم جنس پرستوں کو جلاوطن کر کے قید خانوں میں بھیج دیا گیا؛ کچھ کو بعد میں مزید تفتیش کے لئے کیمپ بھیج دیا گیا۔ پانچ ہزار اور پندرہ ہزار ہم جنس پرستوں کو، جن میں سے زیادہ تر جرمن یا آسٹرین تھے، حراستی کیمپوں میں قید کیا گيا جہاں انہیں تکون کی شکل کا گلابی کپڑے کا اسٹکر پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا جو ان کی ہم جنس پرست کے طور پر نشان دہی کرتا تھا۔

18 اگست 1944
کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کو بوخین والڈ میں ہلاک کردیا گيا

ارنسٹ تھیلمان کو جو 1925 سے جرمن کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اور جرمن صدارت کے امیدوار بھی رہ چکے تھے، بوخین والڈ کیمپ میں ہلاک کردیا گيا۔ انہیں ان کے ایس ایس محافظوں نے ایک قریبی فیکٹری پر ہوائی حملے کے دوران قتل کردیا۔ تھیلمان کو 1933 میں رائخ اسٹاگ (جرمن پارلیمنٹ) کی عمارت میں لگنے والی آگ کے بعد گرفتار کیا گيا تھا اور انہوں نے کیمپوں میں بارہ سال سے زائد عرصہ گزارا تھا۔ نازیوں نے سب سے پہلے کمیونسٹوں، سوشل ڈيموکریٹس اور ٹریڈ یونینوں کے ممبران کو پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔