چونکہ نازی نسل کشی کا مرکزی ہدف یہودی تھے، قتل کے مراکز کے بیشتر قیدی بھی یہودی ہی تھے۔ تاہم جنسینکڑوں جبری مشقت اور حراستی کیمپوں میں گیس کے ذریعے ہلاک کرنے کی سہولیات نہيں تھیں وہاں دوسری برادریوں سے بھی تعلق رکھنے والے افراد پائے جاتے تھے۔ قیدیوں کو اپنی جیکٹوں پر مختلف رنگوں کے تکونی نشانات پہننا پڑتے تھے تاکہ کیمپوں کے محافظ اور افسر ان کی باآسانی شناخت کرسکيں اور مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا سکیں۔ سیاسی قیدی مثلاً کمیونسٹ، سوشلسٹ اور تجارتی یونینوں کے اہلکاروں کے تکونی نشانات سرخ تھے۔ عام مجرموں کے تکونی نشانات سبز تھے۔ روما (خانہ بدوش) اور جرمنوں کی نظر میں دوسرے "غیرسماجی" اور "غیر موذوں" افراد کالے نشانات پہنتے تھے۔ یہوواز وھٹنس کے پیروکار جامنی اور ہم جنس پرست گلابی نشان پہنتے تھے۔ شہریت حروف کے ذریعے ظاہر کی جاتی تھی: مثال کے طور پر پی پولش، ایس یو سوویت یونین اور ایف فرانسیسیوں کی نشان دہی کرتے تھے۔

پکڑے جانے والے سوویت فوجی جبری مزدوروں کے طور پر کام کرتے تھے۔ ان میں سے کئی جنگی قیدیوں کو یا تو ہلاک کردیا گیا یا وہ جرمنوں کی بدسلوکی کی وجہ سے مرگئے۔ مجموعی طور پر جرمنوں کے ہاتھوں تیس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے۔
تئيس ہزار جرمن اور آسٹرین روما (خانہ بدوش) آش وٹز کے مکین تھے اور وہاں ان میں سے تقریباً بیس ہزار کو ہلاک کردیا گيا۔ روما (خانہ بدوش) مرد، عورتوں اور بچوں کو ایک علیحدہ کیمپ میں ایک ساتھ بند کرکے رکھا گیا۔ 2 اگست 1944 کی رات کو روما کے ایک بڑے گروہ کو "خانہ بدوشوں کے خاندانوں کے کیمپ" کی تباہ کاری کے دوران گیس دے کر ہلاک کردیا گيا۔ تقریباً تین ہزار روما کو قتل کردیا گيا جن میں زيادہ تر عورتيں اور بچے شامل تھے۔ کچھ مردوں کو جرمنی میں جبری مزدوری کے کیمپوں میں بھیجا گیا جہاں وہ مارے گئے۔ مجموعی طور پر جرمنی کے تمامتر مقبوضہ یورپ میں سینکڑوں ہزاروں روما کیمپوں میں اور موبائل قتل کے اسکواڈ کے ذریعے قتل کئے گئے۔

سیاسی قیدیوں، یہوواز وھٹنس کے پیروکاروں اور ہم جنس پرستوں کو صرف سزا کے طور پر حراستی کیمپوں میں بھیجا گيا تھا۔ ان گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہودیوں اور روما کی طرح باقاعدہ قتل کا نشانہ نہیں بنایا گيا۔ پھر بھی بہت سے لوگ بھوک، بیماری، تھکان اور ظالمانہ سلوک کی وجہ سے کیمپوں میں انتقال کرگئے۔

اہم تواریخ

یکم جولائی 1937
چرچ کے منحرف سربراہ مارٹن نئیموئیلر کو گرفتار کرلیا گيا

لوتھرین چرچ میں نازی نسلی نظریے کے مخالف، اور مخالفتی "فرقہ وار چرچ" کے بانی مارٹن نئیموئیلر کو گرفتار کرلیا گيا۔ انہيں 1938 میں ساخسین ھوسن حراستی کیمپ بھیجا گیا اور انہوں نے اپنی زندگی کے اگلے سات سال حراستی کیمپوں میں گزارے۔ جنگ کے بعد نئیموئیلر نے نازی پالیسیوں کو خاموشی سے دیکھنے والوں کی مذمت کی جو جلد کارروائی کے لئے ایک مطالبہ بن گیا۔ انہوں نے کہا: "پہلے وہ سوشلسٹوں کے پیچھے پڑے اور میں نے کچھ نہ کہا - کیونکہ میں سوشلسٹ نہيں تھا۔ پھر وہ تجارتی یونین کے اراکین کے پیچھے پڑے اور میں نے کچھ نہ کہا – کیونکہ میں تجارتی یونین کا رکن نہيں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کے پیچھے پڑے اور میں نے کچھ نہ کہا – کیونکہ میں یہودی نہيں تھا۔ پھر وہ میرے پیچھے پڑے - اور میرے لئے کسی نے کچھ نہ کہا کیونکہ کوئی باقی ہی نہ رہا تھا"

6 جون 1941
جرمنی کی اعلی انتظامہ نے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے افسر کے قتل کا حکم دے دیا

سوویت یونین پر جرمنی کے حملے سے دو ہفتے قبل، جرمن افواج کی اعلی انتظامیہ نے سوویت جنگی قیدیوں میں سے سوویت کمیونسٹ پارٹی کے افسران کی اسکریننگ شروع کردی۔ ان افسران کو فوری ہلاکت کے لئے موبائل قتل کے اسکواڈ (آئن سیٹزگروپن) کے حوالے کردیا گیا۔ 22 جون 1941 اور 9 مئی 1945 کے درمیان تیس لاکھ سے زیادہ سوویت جنگی قیدی جرمن حراست میں مارے گئے۔ زیادہ تر تو بھوک، بیماری یا ٹھنڈ کی وجہ سے مرگئے لیکن ہزاروں کو کمیونسٹوں، یہودی یا "ایشیائی" ہونے کے باعث گولی ماردی گئی۔

2 سے 3 اگست 1944
آش وٹز کے خانہ بدوشوں کے کیمپ کو بند کردیا گیا۔

تئیس ہزار روما (خانہ بدوشوں) کو آش وٹز- برکیناؤ جلاوطن کردیا گيا اور انہيں کیمپ کے علیحدہ حصے میں ڈال دیا گیا۔ وہاں کے حالات حد سے زیادہ برے تھے۔ آش وٹز میں تقریباً تمام ہی روما کو گیس کے ذریعے ہلاک کردیا گيا، مشقت کے ذریعے مار دیا گيا یا وہ بیماری سے مرگئے۔ نازيوں نے روما کو نسلی طور پر کمتر ظاہر کر کے ان کے ساتھ بھی تقریباً وہی سلوک کیا جو یہودیوں کے ساتھ کیا۔ 2 سے 3 اگست 1944 کو آش وٹر برکیناؤ کے خانہ بدوشوں کے کیمپ کو بند کردیا گيا۔ باقی رومانی (خانہ بدوش) مرد، عورتوں اور بچوں کو گیس چیمبروں میں ہلاک کردیا گيا۔ ہالوکاسٹ میں دو لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ روما مارے گئے۔