کتنے لوگ دل سے اسے [ہٹلر کو] اپنا مددگارن، نجات دہندہ اور ناقابل برداشت دکھ سے نکالنے والا سمجھتے ہیں۔
— لوئس سولمیٹز، ہیمبرگ کے اسکول ٹیچر، 1932۔

پروپیگنڈا کی جدید تکنیکیں – بشمول مضبوط خاکے اور آسان پیغامات ۔۔۔۔

عوام میں کسی کرشماتی لیڈر کی گہری خواہش نے پروپیگنڈا کے استعمال کیلئے زرخیز زمین تیار کی۔ سیاسی عدم استحکام کے ویمر دور کے دوران عوام کے سامنے نازی پارٹی کے رہنما ایڈولف ہٹلر کی ایک محتاط طور پر منظم کردہ شبیہ کے ذریعہ نازیوں نے قوت کو متحد کرنے اور قومی یکجہتی پیدا کرنے کیلئے اس خواہش کا استحصال کیا۔ نازی پروپیگنڈا سے نازی پارٹی کو بڑی تیزی سے سیاسی برتری حاصل ہوئی اور، آخر کار ملک پر نازی قیادت کا قبضہ ہو گیا۔ خاص طور پر 1920 سے اور 1930 کے اوائل تک انتخابی مہم کے کے مواد، نیز ترغیب آمیز بصری مواد اور محتاط طور پر عوامی شبیہ کے انضباط نے ایڈولف ہٹلر کے گرد "فیوہررکی جماعت" کھڑی کر دی۔ اس کی شہرت میں صرف ان تقاریر کے سبب اضافہ ہوا جو اس نے عوامی ریلیوں، پریڈ میں، اور ریڈیو پر دیے۔ عوامی طور پر نازی پروپیگنڈا کنندگان نے ہٹلر کو ایک سربکف سپاہی، ایک سرپرستانہ شخصیت، اور بتدریج ایک سماجی انقلاب لانے والے قائد کے طور پر پیش کیا جو جرمنی کواس کا کھویا ہوا وقار دلانے والا تھا۔

پروپیگنڈا کی جدید تکنیکیں – بشمول مضبوط شخصیات اور آسان پیغامات نے – آسٹریا میں پیدا ہوئے ہٹلر کو معمولی درجے کی شہرت والے انتہا پسند سے اٹھا کر جرمنی کے 1932 کے صدارتی انتخاب میں ایک نمایاں امیدوار بنا دیا۔ پہلی عالمی جنگ میں پروپیگنڈا نے نوجوان ہٹلر کو کافی متاثر کیا، جس نے 1914 سے 1918 تک سرحد پر ایک فوجی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ دوسرے متعدد لوگوں کی طرح ہٹلر کو بھی اس بات کا پورا یقین تھا کہ جرمنی کو میدان جنگ میں شکست کے سبب جنگ نہیں ہارا بلکہ دشمنوں کے پروپیگنڈے کے سبب اُسے شکست ہوئی تھی۔اس کا خیال تھا کہ پہلی عالمی جنگ کے فاتحین (برطانیہ، فرانس، امریکہ، اور اٹلی) نے واضح طور پر رشوت دی، آسان الفاظ میں اس سے اس کی افواج کو ترغیب ملی اور جرمنی کی جنگ کی خواہش متزلزل ہوئی۔ ہٹلر علامات، تقاریر، اور شبیہ کی اہمیت کو سمجھتا تھ اور اس نے عوام تک پہنچنے کیلئے پارٹی کے جو نعرے تیار کئے وہ سادہ، ٹھوس، اور جذباتی طور پر اپیل کرنے والے تھے۔

1933 سے 1945 تک جرمنوں کی زندگی میں ہر جگہ ایڈولف ہٹلر کی ہیرو والی شبیہ تھی۔ نازی پروپیگنڈا کنندگان نے اپنے قائد (فیوہرر) کو جرمن قوم کی زندہ جاوید علامت قرار دیا، جو دوبارہ قوت حاصل کرنے اور جرمنی کے تئیں پوری طرح وفادار تھا۔ عوامی خطابات میں ہٹلر کو پہلی عالمی جنگ کے بعد ورسائی میں ہونے والے سمجھوتے کی شرائط کے ذریعے کچلے گئے جرمنی کو بچانے والا قرار دیا گیا۔ ایڈولف ہٹلرکے پیروکاروں کی جماعت نے ارادی طور پر عوام پر نظر رکھنے کا عمل شروع کیا۔ نازی پروپیگنڈا کنندگان اور فن کاروں نے فیوہرر کی تصاویر، پوسٹرز، اور مجسمے تیار کیے، جنہیں بڑی تعداد میں عوامی مقامات ساتھ ہی نجی گھروں کیلئے بھی تیار کیا گیا۔ نازی پارٹی کے پبلشنگ ہاؤس نے ہٹلر کی سیاسی خودنوشت سوانح، مین کیمف(میری جدوجہد) کے لاکھوں کی تعداد میں خصوصی شمارے، ساتھ ہی نوشادی شدہ افراد کیلئے شمارے اور اندھے افراد کیلئے بریل میں تراجم شائع کیے۔

نازی پروپیگنڈا کنندگان نے ہٹلر کو ایک خدا داد حکمران کے طور پر پیش کیا جس نے استحکام قائم کیا، ملازمتیں پیدا کیں اور جرمنی کے وقار کو بحال کیا۔ نازی حکومت کے تحت جرمنوں سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ "فیوہرر" کا مذہبی طریقہ آداب کی طرح ہی عوامی طور پراحترام کیا جائے، جیسے نازی سلوٹ دینا اور سڑکوں پر ایک دوسرے کو "ہیل ہٹلر!،" کے خودساختہ "جرمن آداب" سے مخاطب کریں۔ ہٹلر پر اعتماد نے قومی اتحاد کے بندھنوں کو مضبوط کیا، جبکہ ایک ایسے معاشرے کی شروعات بھی ہوئی جہاں اس کی عدم تعمیل اور حکومت اور اس کے قائدین پر کھلی تنقید پر قید کی سزا دی جاتی تھی۔

جرمنی کے چانسلر مقرر ہونے کے بعد ایڈولف ہٹلر 21 مارچ 1933 کو جرمنی کے شہر پوٹسڈیم میں صدر ھنڈنبرگ کا استقبال کرتے ہوئے۔