مقبوضہ یورپ میں زیادہ تر افراد نے نازی نسل کشی میں فعال طور پر شرکت نہيں کی۔ نہ ہی انہوں نے یہودیوں اور نازی پالیسیوں کے کا ہدف بننے والے دیگر لوگوں کی مدد کرنے کے لئے کچھ کیا۔ ہالوکاسٹ کے دوران لاکھوں افراد خاموشی سے یہودیوں، روما (خانہ بدوشوں) اور "رائخ کے دشمنوں" کی گرفتاری اور جلاوطنی کا تماشہ دیکھتے رہے۔ ان تماشائیوں نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر خاموشی کا راستہ اپنایا کہ وہ جو کچھ دیکھ رہے ہيں، اس سے ان کا کوئی تعلق نہيں۔ دوسروں کو مدد کرنے میں خوف محسوس ہو رہا تھا۔ کئی جگہوں پر یہودیوں کو پناہ دینا ایک جرم تھا جس کی سزا موت تھی۔

ان خطرات کے باوجود کچھ افراد نے کھڑے ہو کر تماشہ دیکھنے سے انکار کردیا- ان لوگوں نے ہمت کرکے چھپنے کی جگہیں، فرار ہونے کے زمین دوز راستے، جعلی دستاویزات، کھانے پینے کا سامان، لباس، پیسے اور کبھی کبھار تو ہتھیار تک فراہم کئے۔

ڈنمارک وہ واحد مقبوضہ ملک تھا جس نے نازی حکومت کی طرف سے یہودی شہریوں کو جلاوطن کرنے کی کوششوں کی سرگرم طور پر مخالفت کی۔ 28 اکتوبر 1943 کو، جرمن سفیر جارج فرڈنینڈ ڈکوٹز نے ڈینش مزاحمت کو خفیہ طور پر اطلاع دی کہ نازی ڈینش یہودیوں کو جلاوطن کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ڈینش لوگوں نے اس کے خلاف جلد ہی ردعمل ظاہر کیا اور ملک بھر میں یہودیوں کو خفیہ طور پر سمندر کے راستے سے غیرجانبدار ملک سویڈن لے جانے کی کوششیں کرنا شروع کردیں۔ جرمنوں کے منصوبے کی اطلاع ملنے پر یہودیوں نے ریل گاڑیوں اور گاڑیوں میں، اور پیدل کوپن ہیگن چھوڑنا شروع کردیا جہاں ڈنمارک کے آٹھ ہزار یہودیوں کی اکثریت رہتی تھی۔ ڈینش عوام کی مدد کے ساتھ وہ گھروں، ہسپتالوں اور گرجا گھروں میں جا چھپے۔ دو ہفتوں کے اندر ماہی گیر 7200 کے لگ بھگ ڈینش یہودیوں اور ان کے 680 غیریہودی خاندان والوں کو ڈنمارک اور سویڈن کے درمیان موجود پانی کے پار محفوظ علاقے میں لے گئے۔

ڈينش بچاؤ کی کوشش اس وجہ سے بھی منفرد تھی کہ یہ پورے ملک پر پھیلی ہوئی تھی۔ تاہم یہ مکمل طور پر کامیاب نہیں رہی۔ 500 کے قریب ڈينش یہودیوں کو جلاوطن کرکے چیکوسلوواکیا کے تھیریسئن شٹٹ یہودی بستی لے جایا گیا۔ لیکن ان یہودیوں میں سے بھی 51 کے علاوہ سب ہی زندہ بچ گئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ڈینش افسر جرمنوں کو جلاوطن ہونے والوں کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں دباؤ ڈالتے رہے۔ ڈنمارک کے باشندوں نے ثابت کردیا کہ یہودیوں کی حمایت اور نازی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی وجہ سے جانیں بچ سکتی ہیں۔

دوسرے ممالک میں بھی ایسے بہادر لوگوں کی کئی کہانیاں ہيں جنہوں نے یہودیوں کو نازیوں کے ہاتھوں موت سے بچا لیا۔ فرانس میں گرجا گھروں نے تقریباً بارہ ہزار یہودیوں کو بچا کر ان کے لئے رہائش تلاش کی اور کچھ کو خفیہ طور پر سوٹزرلینڈ اور اسپین بھی پہنچایا۔ پولینڈ کے بیس ہزار کے قریب یہودی وارسا کی یہودی بستی کے باہر اس وجہ سے بچے رہ گئے کہ لوگوں نے ان کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔ کچھ یہودیوں کو وارسا کے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر جان زیبنسکی نے چڑیا گھر میں بھی چھپایا۔

اہم تواریخ

29 اگست 1943
ڈنمارک کی حکومت مستعفی

جرمنی نے 9 اپریل 1940 کو ڈنمارک پر قبضہ کرلیا۔ ڈنمارک اور جرمنوں کے درمیان ایک معاہدے کے تحت ڈنمارک کی حکومت اور فوج قائم رہی۔ قبضے کے باوجود، جرمنوں نے ڈنمارک سے جلاوطنی کا عمل شروع نہيں کیا۔ 1943 کے موسم گرما میں حمایتیوں کی فوج کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈنمارک میں ہڑتالوں اور تخریب کاری کی صورت میں مخالفتی سرگرمیاں بڑھتی رہیں۔ تاہم ان اعمال کی وجہ سے قابض جرمن فوجوں اور ڈنمارک کی حکومت کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا۔ اگست 1943 ميں جرمنوں نے ڈینش حکومت سے مخالفت ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈینش حکومت نے مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا اور استعفی دے دیا۔ اس وقت جرمن قبضے کو تین سال گزر گئے تھے۔ جرمنوں نے ڈنمارک کا انتظام سنبھال لیا اور یہودیوں کو گرفتار کرکے انہيں جلاوطن کیا اور "حتمی حل" پر عملدرآمد کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس کے جواب میں ڈنمارک کے باشندوں نے ملک بھر میں بچاؤ کا عمل شروع کردیا۔

2 اکتوبر 1943
سویڈن نے ڈنمارک کے یہودیوں کو پناہ کی پیش کش کی

برلن میں جرمن افسران کو پیش کی جانے والی ایک رپورٹ میں سویڈن کی حکومت نے ڈنمارک کے سات ہزار کے قریب یہودیوں کو پناہ کی پیش کش کی۔ ستمبر 1943 کے آخر میں ڈینش یہودیوں کی گرفتاری اور جلاوطنی سے متعلق جرمن منصوبے کی خبر ڈینش حکام کو ہوئی جس نے ڈنمارک کے یہودیوں کو خبردار کرکے چھپنے کی ترغیب دی۔ اس کے جواب میں ڈنمارک کی مخفی اور عام آبادی نے فوری طور پر یہودیوں کو خفیہ طور پر ساحل سمندر تک لے جانے کی کوشش شروع کردی تاکہ وہاں سے ڈينش ماہی گیر انہيں کشتیوں کے ذریعے سویڈن لے جا سکیں۔ تین ہفتوں سے بھی کم عرصے میں ڈنمارک کے باشندے سات ہزار سے زائد یہودیوں اور ان کے سات سو کے قریب رشتہ داروں کو سویڈن لے گئے۔ ڈنمارک کے باشندوں کی کوششوں کے باوجود بھی جرمنوں نے 500 کے قریب یہودیوں کو گرفتار کرکے تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی میں جلاوطن کردیا۔

23 جون 1944
ڈینش وفد تھیریسئن شٹٹ پہنچا

ایک ڈينش وفد نے بین الاقوامی ریڈ کراس کے نمائیندوں کے ساتھ بوہیمیا میں تھیریسئن شٹٹ کی یہودی بستی کا دورہ کیا۔ ان ملاقاتیوں اور دنیا کو یہودیوں کے ساتھ نازیوں کے سلوک کے متعلق دھوکا دینے کے لئے ایس ایس نے یہودی بستی کو خوبصورت بنا کر یہ ظاہر کروایا کہ تھیریسئن شٹٹ ایک خود مختار یہودی بستی ہے۔ تھیریسئن شٹٹ میں دوسرے قیدیوں کے برعکس وہاں کے 500 ڈينش قیدیوں کو حراستی کیمپوں میں جلاوطن نہيں کیا گيا اور انہيں ریڈ کراس سے پارسل وصول کرنے کی اجازت مل گئی۔ 15 اپریل 1945 کو ڈینش قیدیوں کو یہودی بستی سے رہا کرکے سویڈش ریڈ کراس کے حوالے کردیا گیا۔ یہ سویڈش حکومت کے نمائیندوں اور نازی افسران کے درمیان مذاکرات کا نتیجہ تھا جس میں کیمپوں میں اسکینڈینیویا سے تعلق رکھنے والے قیدیوں کو، جن میں یہودی شامل تھے، شمالی جرمنی میں ایک عارضی کیمپ میں منتقل کردیا گيا۔ ان قیدیوں کو آخرکار سویڈن بھیجا گیا جہاں وہ جنگ کے اختتام تک رہے۔ جلاوطن ہونے والے 500 سے قریب ڈينش یہودیوں میں سے تقریباً 450 زندہ بچ گئے۔