امریکہ نے یہودیوں کو ہالوکاسٹ سے بچنے کی کوششیں اُس وقت تک شروع نہیں کیں جب تک کہ جنگ کو شروع ہوئے کافی عرصہ بیت نہ چکا۔ جنوری 1944 میں وزیر خرانہ ہینری مارگنتھاؤ جونئیر نے فرینکلن ڈی روزویلٹ کو جنگی پناہ گزین بورڈ قائم کرنے کی ترغیب دی۔

1942 میں امریکی سرکاری محکمے کو یہودیوں کے اجتماعی قتل کی خبر ملنے کے باوجود افسران خاموش رہے۔ جنگ کے دوران محکمہ خارجہ اپنی اس بات پر قائم رہا کہ نازی جرمنی کی پالیسیوں سے لوگوں کو بچانے کا بہترین طریقہ جلد از جلد جنگ میں فتح حاصل کرنا تھا۔

جنگی پناہ گزینوں کے بورڈ نے مقبوضہ علاقوں سے یہودیوں کو بچانے اور نازی حراستی کیمپوں کے مکینوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے یہودی تنظيموں، غیرجانبدار ممالک کے سفارت کاروں اور یورپ میں مزاحمتی گروہوں کے ساتھ کام کیا۔ اس کی سب سے زيادہ جامع کوششيں بوڈاپیسٹ، ہنگری میں رہنے والے سویڈش سفارت کار راؤل والینبرگ کی سربراہی میں ہوئيں۔ والنبرگ نے حفاظتی سویڈش پاس پورٹ جاری کرکے ہزاروں یہودیوں کو آش وٹز جلاوطن ہونے سے بچایا۔ سویڈن کے غیرجانبدار ملک ہونے کی وجہ سے جرمنی سویڈش شہریوں کو آسانی سے نقصان نہيں پہنچا سکتا تھا۔ والنبرگ نے بوڈاپیسٹ کے یہودیوں کے لئے ہسپتال، نرسریاں اور سوپ کچن قائم کئے۔

جنگی پناہ گزینوں کے بورڈ نے دو لاکھ یہودیوں کو بچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ تاہم لوگ اب تک سوچتے ہيں کہ اگر بچاؤ کی مہموں کو پہلے شروع کیا جاتا تو مزید کتنے یہودیوں کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ راؤل والنبرگ بوڈاپیسٹ کی سوویت یونین کے ہاتھوں رہائی کے دوران غائب ہوگیا۔ اسے آخری دفعہ 17 جنوری 1945 کو سوویت فوجیوں کے ساتھ دیکھا گیا۔ دس سال بعد سوویت یونین نے اسے گرفتار کرنے کا اعتراف کیا اور دعوی کیا کہ اس کا 1947 میں قیدخانے میں ہی انتقال ہوگیا تھا۔

اہم تواریخ

13 جنوری 1944
ریاستہائے متحدہ امریکہ نے کارروائی کی

جیسے جیسے یورپ کے یہودیوں کے اجتماعی قتل کو 1943 اور 1944 کے آغاز میں مشتہر کی جاتا رہا، امریکی حکومت پر یورپ میں بچاؤ کی کوششوں کو بڑھانے کے لئے دباؤ بڑھتا گیا۔ 13 جنوری 1944 کو محکمہ خزانہ نے بچاؤ کی کوششیں نہ کرنے پر ایک میمو کے ذریعے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سرزنش کی۔ امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کو یورپ کے یہودیوں کے بچاؤ کی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کے لئے حکومتی کمیشن قائم کرنے کی ترغیب دی گئی۔ 22 جنوری 1944 کو روزویلٹ نے ایگزيکٹو فرمان 9417 پر دستخط کئے جس کے تحت جنگی پناہ گزینوں کا بورڈ قائم ہوا۔ بورڈ کا کام ظلم و ستم کا شکار ہونے والےافراد کے بچاؤ اور امداد سے متعلق امریکی حکومت کی پالیسیاں نافذ کرنا تھا۔ اس میں پناہ گاہوں کیلئے محفوظ مقامات کا قیام، نازیوں کے مقبوضہ علاقوں سے خطرے میں گھرے ہوئے افراد کو نکالنا اور حراستی کیمپوں میں امدادی سازوسامان پہنچانا شامل ہے۔ یورپ میں امریکی سفارت کاروں کو ایک ایکزیکٹو آرڈر میں بیان کردہ تمام پالیسیاں نافذ کرنے کی ہدایات جاری کردی گئیں۔ جنگ کے اختتام تک، بورڈ نے تقریبا دو لاکھ یہودیوں کی مدد کی۔

9 جون 1944
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں پناہ گزینوں کے لئے علامتی پناہ گاہ

امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے ایک پریس کانفرنس میں اوسویگو، نیو یارک میں فورٹ اونٹاریو پر پناہ گزینوں کا ایک ہنگامی کیمپ کھولنے کا اعلان کیا۔ امریکہ میں اس "آزاد بندرگاہ" کے قیام کا مطلب امریکی امیگریشن پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہيں تھا۔ کیمپ کے پناہ گزینوں میں کئی غیریہودی شامل تھے اور ان کا تعلق نازی مقبوضہ علاقہوں سے بھی نہيں تھا (وہ زيادہ تر جنوبی اٹلی کے آزاد کردہ علاقے سے تعلق رکھتے تھے)۔ اگست 1944 میں فورٹ اونٹاریو پر ایک ہزار کے قریب پناہ گزين پہنچے۔ ان کے ساتھ امریکہ کے مہمانوں کا سا سلوک کیا گیا اور یوں تکنکی اعتبار سے ان کے لئے جنگ کے بعد یورپ واپس جانا ضروری تھا۔ ان پناہ گزینوں پر سلامتی کی پابندیاں عائد کی گئيں اور انہيں کیمپ سے باہر کام کرنے کی اجازت نہيں تھی۔ خاطر خواہ مخالفت کے باوجود 22 دسمبر 1945 کو صدر ہیری ٹرومین نے اعلان کیا کہ فورٹ اونٹاریو میں موجود پناہ گزين ویزے کے اہل ہيں اور انہيں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت بھی ہے۔ فورٹ اونٹاریو دوسری جنگ عظيم کے دوران امریکی علاقوں میں پناہ گزينوں کے لئے پناہ گاہ فراہم کرنے کے سلسلے میں امریکیوں کی واحد کوشش تھا۔

9 جولائی 1944
بوڈاپیسٹ میں راؤل والنبرگ

غیرجانبدار سویڈن کے ایک سفارت کار راؤل والنبرگ بوڈاپیسٹ کے یہودیوں کی امداد اور بچاؤ میں مدد فراہم کرنے کے لئے سویڈش سفارت کار کی حیثیت سے جنگی پناہ گزینوں کے بورڈ کی جانب سے ایک تقرر پر بوڈابیسٹ پہنچے۔ والنبرگ کے پہنچنے تک جرمنوں نے ہنگری سے تقریباً 4 لاکھ 40 ہزار افراد کو جلاوطن کردیا تھا۔ تقریباً دو لاکھ یہودی بوڈاپیسٹ میں رہ گئے تھے اور انہیں بھی جلاوطنی کا سامنا تھا۔ والنبرگ نے سویڈش حفاظتی پاس جاری کئے اور یہودیوں کو ایسے گھروں میں منتقل کردیا جنہیں سویڈش تحفظ حاصل تھا۔ نومبر 1944 میں جب جرمنوں نے بوڈاپیسٹ کے یہودیوں کو آسٹریا کے لیبر کیمپس تک لے جانے کے لئے یہودیوں کا ایک موت کا مارچ شروع کیا تو والنبرگ نے اس مارچ کا پیچھا کرکے حفاظتی کاغذات رکھنے والے یہودیوں کو نکال کر انہیں بوڈابیسٹ میں محفوظ گھروں میں پہنچایا۔ 1944 کے اختتام کے قریب ستر ہزار سے زائد یہودیوں کو بوڈاپیست کی ایک یہودی بستی میں جمع کیا گيا۔ والنبرگ نے جرمن اور ہنگیری کے حکام کی طرف سے یہودی بستی اور اس کے مکینوں کو تباہ کرنے کی دھمکیوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔ دوسرے غیرجانبدر ممالک کے سفیر بھی والینبرگ کی بچاؤ کی کوششوں میں شامل ہو گئے۔ جنوری 1945 میں راؤل والنبرگ سوویت حراست میں بوڈاپیسٹ سے روانہ ہوئے اور اس کے بعد سے اُن کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہ ہوئی۔