چار ممالک کے نمائیندے جنہوں نے 14 اکتوبر، 1950 کو نسل کُشی کے کنونشن کی توثیق کی

نیورمبرگ مقدموں کی سماعت کے وقت "نسل کشی" کا کوئی قانونی تصور موجود نہیں تھا۔ 2 ستمبر 1998 کو نسل کشی کی حدود طے کرنے کے بعد روانڈا کیلئے بین الاقوامی کریمنل ٹرائبیونل (اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کی جانے والی عدالت) نے ایک انٹرنیشنل ٹرائبیونل کے سامنے مقدمے کی سماعت کے بعد نسل کشی کے جرم کیلئے پہلی بار سزا سنائی جب یاں پال آکاییسو نامی ایک شخص کو روانڈا کے قصبے طابہ کے میئر کی حیثیت سے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے اور اِن سے متعلق کارروائیوں کی نگرانی کرنے کے جرم کا قصوروار گردانا گیا۔

نوجوان آکاییسو 1953 میں طابہ کے قصبے میں پید ا ہوا۔ وہ مقامی فٹبال ٹیم کا فعال رکن تھا۔ اُس کے پانچ بچے تھے اوروہ تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک تھا۔ آکاییسو اپنی کمیونٹی میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ اعلٰی اخلاق، ذہانت اور دیانت کی وجہ سے جانا پہچانا جاتا تھا۔

آکاییسو 1991 میں سیاسی طور پر سرگرم ہو گیا اور حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک رپبلکن موومنٹ یعنی ایم۔ آر۔ ڈی کا مقامی صدر منتخب ہو گیا۔ ابتدائی طور پر کوئی عوامی منصب قبہول کرنے سے گریزاں وہ طابہ کا میئر منتخب ہو گیا۔ وہ اپریل 1993 سے جون 1994 تک اِس منصب پر فائز رہا۔

بطور میئرآکاییسو اپنے گاؤں کا لیڈر تھا اور اُسے آبادی احترام کی نظر سے دیکھتی تھی۔ اُس نے مقامی معیشت کی نگرانی کی۔ پولیس کو کنٹرول کیا۔ قانون کی بالادستی قائم کی اور قصبے کی سماجی زندگی کی قیادت کی۔ < P> 7 اپریل 1994 کو روانڈا میں نسلی قتل و غارتگری کے آغاز کے بعد آکاییسو نے ابتدا میں تو اپنے شہر کو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں سے محفوظ رکھا اور ملیشیا کو وہاں کارروائی کی اجازت نہیں دی اور مقامی ٹوٹسی آبادی کا تحفظ کیا۔ لیکن عبوری حکومت کے لیڈروں کے ساتھ میئرز کی 18 اپریل کو ہونے والی ملاقات کے بعد (اِن لیڈروں نے قتل و غارتگری کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس پر عملدرآمد کرایا تھا) شہر میں ایک بنیادی تبدیلی آئی اور بظاہر آکاییسو میں بھی یہ تبدیلی نظر آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُس نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ اُس کے سیاسی اور سماجی مستقبل کا انحصار قتل و غارتگری کرنے والی طاقتوں کے ساتھ شامل ہونے پر ہے۔ آکاییسو نے اپنے بزنس سوٹ کو اتار کر فوجی جیکٹ پہن لی اور تشدد کو اپنا حربہ اور ہتھیار بنا لیا۔ عینی شاہدوں نے اُسے دیکھا کہ وہ شہریوں کو اُکساتا کہ وہ قتل و غارتگری کی کارروائیوں میں شامل ہوں اور پہلے کے محفوظ مقامات کو اذیت، آبروریزی اور قتل گاہوں میں تبدیل کر دیا۔

جب جنگ کا خاتمہ ہوا تو آکاییسو زائرے (جو اب جمہوریہ کانگو ہے) کی طرف فرار ہو گیا اور بعد میں زمبیا کی طرف نکل گیا جہاں اکتوبر 1995 میں اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ روانڈا کیلئے جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں اُس پر مقدمہ چلایا گیا جہاں اُسے نسلی قتل و غارتگری کا قصوروار پایا گیا۔ بین الاقوامی عدالت میں پہلی بار ایسی سزا دی گئی اور یہ پہلا موقع تھا جب آبروریزی کو بھی نسلی قتل و غارتگری کا حصہ قرار دیا گیا۔ آکاییسو اب مالی کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔