نومبر 1941 میں جرمن حکام نے جبری مزدوری کا ایک کیمپ قائم کیا جو بعد میں ٹریبلنکا I کہلایا۔ یہ کیمپ مقبوضہ پولینڈ کے شہر وارسا سے 50 میل شمال مشرق کی جانب واقع تھا۔ جولائی 1942 میں جرمن حکام نے ایک قتل مرکز کی تعمیر مکمل کر لی جسے ٹریبلنکا II کہا جاتا تھا۔ جولائی 1942 سے نومبر 1943 تک جرمنوں اور اُن کے حلیفوں نے ٹریبلنکا میں 870,000 سے 925,000 تک یہودیوں کو قتل کیا۔ جرمنوں نے یہودیوں کو وارسا گھیٹو، راڈم، بائلیسٹاک اور لوبلن ڈسٹرکت کے علاوہ تھیریسئن شٹٹ حراستی کیمپ اور یونان کے بلغارین مقبوضہ زون (تھریس) اور یوگوسلاویہ (میسی ڈونا) سے جلاوطن کر کے ٹریبلنکا پہنچایا۔ علاوہ اذیں روما (خانہ بدوش) اور مسیحی پولش افراد کو بھی ٹریبلنکا II میں قتل کیا گیا۔

ٹریبلنکا قتل مرکز کے گرد درختوں کے گھنے جھنڈ تھے۔ اس کا عملہ 25 سے 35 جرمن اہلکاروں اور 90 سے 150 رکنی ذیلی گارڈز یونٹ پر مشتمل تھا جس میں سوویت جنگی قیدی یا پھر یوکرانین اور پولش شہری شامل تھے۔ وہاں پہنچنے والی 50 یا 60 بوگیوں پر مشتمل ٹرینیں پہلے قریبی مالکینیا اسٹیشن پر رکتی تھیں۔ وہاں ایک وقت میں بیس بوگیوں کو الگ کر کے قتل مرکز کے اندر لایا جاتا تھا۔ وہاں ایس ایس اور پولیس اہلکار اعلان کرتے کہ جلاوطن ہونے والے افراد ایک عبوری کیمپ میں پہنچ گئے ہیں اور یہاں اُنہیں اپنی تمام قیمتی اشیاء اُن کے حوالے کرنی ہوں گی۔

یہاں سے قیدیوں کو برہنہ حالت میں ایک تنگ راہداری سے بھاگ کر گیس چیمبرون میں پہنچنا ہوتا تھا۔ ان راہداریوں کو ٹیوب کہا جاتا تھا۔ گیس چیمبروں کو دھوکے سے غسل خانوں کا نام دیا جاتا تھا۔ جب گیس چیمبر کے درواذے مقفل کر دئے جاتے تو عمارت کے باہر ایک انجن اسٹارٹ کیا جاتا تھا جو گیس چیمبر میں کاربن مونو آکسائیڈ گیس پمپ کرتا تھا جس سے چیمبروں کے اندر موجود تمام افراد ہلاک ہو جاتے تھے۔ یہودی قیدیوں کے ایک گروپ کو جبری مشقت کے لئے منتخب کر کے زندہ رکھا جاتا تھا۔ وہ لاشوں کو چیمبروں سے نکال کر اجتماعی قبروں میں دفن کرتے تھے۔ وقتاً فوقتاً کیمپ کا عملہ ان جبری مزدوروں کو ہلاک کر دیتا تھا اور پھر نئے پہنچنے والے قیدیوں میں سے مزید افراد کو اس کام کیلئے چھانٹ لیا جاتا تھا۔ وہاں پہنچنے والے وہ قیدی جو اس قدر کمزور اور نڈھال ہوتے کہ چل کر گیس چیمبروں تک نہ جا سکتے تو اُنہیں اُس جگہ لیجا کر گولی مار دی جاتی جنہیں ہسپتال بتایا جاتا تھا۔

1942 کے موسم خزاں کے آغاز سے کیمپ کے حکام نے اجتماعی قبروں سے لاشوں کو نکال کر نذر آتش کرنا شروع کر دیا تاکہ قتل عام کے ثبوت مٹائے جا سکیں۔ یہودی قیدیوں کو یہ سفاکانہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا۔ 2 اگست 1943 کو قیدیوں نے کیمپ کے اسلحہ خانے سے ہتھیار نکال لئے لیکن اس بات کا پتہ چل گیا۔ سینکڑوں قیدیوں نے فرار ہونے کی کوشش میں مین گیٹ پر دھاوا بول دیا۔ بہت سے قیدی مشین گن کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔ 300 سے زائد قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم ان کی دو تہائی تعداد کو ڈھونڈ کر قتل کر دیا گیا۔ جبری مزدوری کا کیمپ ٹریبلنکا I جولائی 1944 کے اختتام تک کام کرتا رہا۔ جب سوویت فوجی اس علاقے میں داخل ہوئے، کیمپ کے عملے نے باقی رہ جانے ولے 300 سے 700 یہودی قیدیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا اور کیمپ کو ختم کر دیا۔ سوویت فوجیوں نے جولائی 1944 کے آخری ہفتے میں ٹریبلنکا کی جگہ پر کنٹرول حاصل کر لیا۔