ہولوکاسٹ

ہولوکاسٹ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہماری مغربی تہذیب، قومی ریاست اور جدید بیوروکریٹک تہذیب کے ساتھ ساتھ انسانی فطرت کو سمجھنے کیلئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لاکھوں معصوم شہریوں کے قتل کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ ایک نسل پرست سوچ کے تحت، جس کے مطابق یہودی ایسے کیڑے تھے جو صرف مٹائے جانے کے قابل تھے، نازیوں نے وسیع و عریض پیمانے پر قتل و غارتگری کا پروگرام شروع کیا۔ انہوں نے تباہی کے لئے یورپ کے یہودیوں کو رگید ڈالا: خواہ وہ بیمار ہوں یا صحت مند، امیر ہوں یا غریب، مذہبی قدامت پسند ہوں یا عیسائیت کےپیروکار، بوڑھے ہوں یا جوان، یا پھر شیرخوار بچے۔

جنگ سے پہلے یورپ میں رہنے والے تقریباً ہر تین یہودیوں میں سے دو ہولوکاسٹ میں ہلاک کر دئے گئے تھے۔ جب دوسری عالمی جنگ 1945 میں ختم ہوئی تو ساٹھ لاکھ یورپی یہودی مارے جا چکے تھے؛ ہلاک ہونے والوں میں سے دس لاکھ سے زائد بچے تھے۔ تاہم یہ اعداد و شمار بھی گمراہ کن ہیں کیونکہ زندہ بچ جانے والے زیادہ تر یہودی یورپ کے ان علاقوں میں رہتے تھے جن پر جنگ کے دوران جرمنوں کا قبضہ نہ تھا: سوویت یونین کے مشرقی علاقے، برطانیہ، بلغاریہ، اور اسپین جیسی غیر جانبدار ریاستیں، پرتگال، سوئٹزر لینڈ، اور سویڈن۔ دسیوں ہزاروں یہودی جرمن مقبوضہ علاقوں میں بچنے میں کامیاب ہو گئے جو یا تو چھپ کر یا پھر آزادی حاصل کرنے تک حراستی کیمپوں میں قیدیوں کے طور پر رہنے کی وجہ سے زندہ بچ گئے۔ جرمنی اور اس کے اتحادی یورپ کے اُن علاقوں میں مقیم یہودیوں کا شکار کرنے اور انہیں قتل کرنے میں قطعی طور پر بے رحم تھے جن پر ان کا کنٹرول تھا۔

ہولوکاسٹ کے دوران کیا ہوا اور کب، کہاں اور کیسے نازیوں نے اپنے قاتلانہ منصوبے انجام دئے، اس بارے میں کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔تاہم نازیوں کے اقدامات کو سمجھنا شروع کرنے کے لئے ہمیں لازماً اُن نظریاتی بنیادوں کو سمجھنا ہو گا جن کی بنیاد پر ایسے منصوبے تیار کئے گئے۔نسل سے متعلق نازی نظریے کے ستونوں کا جائزہ لینے سے کسی حد تک یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ کیوں یورپ میں بسنے والے یہودیوں کے مکمل خاتمے پر کمر بستہ تھے۔

نسل سے متعلق نازی نظریات

نازی پارٹی کے فیوہرر (راہنما) ایڈولف ہٹلرنے وہ تصور تخلیق کیا اور اسے مشتہر کیا جو نازی نظریے کے نام سے مشہور ہوا۔اس کا خیال تھا کہ وہ ایک گہرا اور عمیق مفکر ہے۔ اُسے یقین تھا کہ اُس نے غیر معمولی طور پر پیچیدہ دنیا کو سمجھنے کی کنجی حاصل کر لی ہے۔اُس کا اعتقاد تھا کہ کسی بھی شخص کی خصوصیات، رویے ، صلاحیتوں اور کردار کا تعین اس کی نام نہاد نسلی بناوٹ یا تشکیل سے کیا جاتا ہے۔ ہٹلر کے خیال میں تمام گروپوں، نسلوں یا لوگوں میں موجود خصوصیات ایک نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں۔ اُس نے گروپ ، نسل اور لوگ کی اصطلاحیں متبادل انداز میں استعمال کیں۔ کوئی بھی فرد نسل کی قدرتی خصوصیات پر قابو نہیں پا سکتا ۔ تمام انسانی تاریخ کو نسلی جدوجہد کی بنیاد پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ہٹلر اور نازیوں نے اپنے نسلی نظریہ کی تشکیل میں 19 ویں صدی کے آخر کے ڈارون کو ماننے والے جرمنوں کی سوچ کو اہمیت دی۔ ان نازیوں کا ماننا تھا کہ انسانوں کی "نسلوں" کے اعتبار سے درجہ بندی کی جا سکتی ہے جس میں ہر نسل کی مخصوص خصوصیات ہیں جو قرون اولیٰ میں انسانوں کے اولین ظہور کے وقت سے جینیاتی لحاظ سے نسل در نسل چلتی آئی ہیں۔ یہ موروثی خصوصیات نہ صرف ظاہری شکل اور جسمانی ساخت سے متعلق تھیں بلکہ اندرونی طور پر ذہنی زندگی، سوچنے کے طریقے، تخلیقی اور تنظیمی صلاحیتوں، ذہانت، اسلوب اور ثقافت کو سراہنے، جسمانی قوت، اور فوجی موزونیت کو تشکیل دیتی ہیں۔

نازیوں نے ڈارون کے ماننے والوں کے ڈاروینین ارتقائی نظرئیے یعنی "موزوں ترین کی بقا" کی اساس کو بھی اپنایا۔ نازیوں کے لئے نسل کی بقا کا انحصار اس کی دوبارہ پیدا کرنے اور خود کو بڑھانے کی صلاحیت، بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک مہیا کرنے کی خاطرزمین کے حصول اور اپنے جینیاتی پول کو پاک رکھنے میں مستعدی پر ہے۔ یوں وہ اپنی منفرد "نسلی" خصوصیات کو محفوظ رکھ سکیں گے جس کے ذریعے فطرت نے اُنہیں اپنی بقا کیلئے جدوجہد کرنے میں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ کیونکہ ہر نسل نے خود کو بڑھانے کی کوشش کی اور چونکہ زمین محدود تھی، بقا کی جدوجہد کے نتیجے میں "قدرتی طور پر" پر تشدد فتح اور جنگی لڑائیوں نے جنم لیا۔ لہذا جنگ بلکہ مستقل جنگ فطرت کا حصہ ہے جو انسانی خصوصیات میں شامل ہے۔

ایک نسل کا تعین کرنے کیلئے سماجی ڈارون پسندوں نے اس کے ساتھ کچھ دقیانوسی تصورات منسلک کر دئے جو مُثبت بھی تھے اور منفی بھی۔ یہ تصورات نسلی گروپوں کی ظاہری شباہت ، کردار، ظہور، رویوں اور ثقافت سے متعلق تھے جن میں تبدیلی ممکن نہ تھی اور جو حیاتیاتی طور پر جینوم میں موجود تھے۔ یہ مختلف ادوار میں تبدیل نہ ہوئے اور ان پر ماحول، ذہنی ارتقاء یا سماجی میل جول کا کوئی اثر نہ ہوا۔ نازیوں کا خیال تھا کہ کسی بھی نسل کے ایک رکن کا کسی دوسری ثقافت یا نسلی گروپ میں ادغام ناممکن ہے کیونکہ بنیادی طور پر نسلی ورثے میں ملنے والی خصوصیات تبدیل نہیں ہو سکتیں: اس طرح کے نام نہاد نسل کے اختلاط سے ان میں صرف زوال پذیری ہی آ سکتی ہے۔

ہدف بنائے گئے گروپ

نازیوں نے یہودیوں کی "نسل" کے طور پر توضیح کی۔ یہودی مذہب کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے نازیوں نے یہودیوں کے بارے میں بہت سے منفی تصورات قائم کر لئے۔ اُنہوں نے یہودی رویے کو حیاتیاتی طور پر ایک ایسے ناقابل تبدیل ورثے کے طور پر جانا جس نے "یہودی نسل" کو دوسری نسلوں کی طرح اس انداز میں اپنی بقا کی جدوجہد کی جانب دھکیل دیا جو دوسری نسلوں کی قیمت پر نشوونما پا سکتی ہے۔

اُنہوں نے یہودیوں کو اہم "دشمن" قرار دیا۔ نسل کے بارے میں نازی نظریاتی تصورنے دوسرے گروپوں کو اپنے ظلم و ستم، حراست اور بربادی کا ہدف بنایا جن میں روما (خانہ بدوش)، معذور افراد، پولینڈ کے لوگ، سوویت یونین کے جنگی قیدی اور افریقی جرمن شامل تھے۔ نازیوں نے سیاسی مخالفین، یہوا ہ کے گواہوں، ہم جنس پرستوں اور نام نہاد تنہائی پسندوں کو دشمن اور سیکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دیا کیونکہ یا تو اُنہوں نے مسلسل حکومت کی مخالفت کی یا پھر ان کے رویے کے کچھ پہلو نازیوں کے سماجی نظریات کے اصولوں کے عین مطابق نہ تھے۔ انہوں نے جرمن معاشرے کی ایک دائمی خود تطہیر کے ذریعے اندرون ملک غیر مُقلدیں اور نام نہاد نسلی خطرات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

نازیوں کا خیال تھا کہ اعلیٰ نسلوں کو نہ صرف حق حاصل تھا بلکہ یہ ان کا فرض تھا کہ وہ کمتر نسلوں کو محکوم بنائیں اور یہاں تک کہ ان کا قلع قمع کر دیں۔ انہیں یقین تھا کہ نسلوں کی یہ جدوجہد فطرت کے قانون کے عین مطابق تھی۔ نازیوں نے محکوم لوگوں پر غالب جرمن نسل کی حکمرانی کے حوالے سے اپنی حکمت عملی جاری رکھی۔ محکوم لوگوں میں خاص طور پر سلاوک اور ایشیائی افراد شامل تھے جن سے اُن کی مراد سوویت وسطی ایشیا کے لوگ اور قفقاز کے علاقے کی مسلمان آبادیاں تھیں جن کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ وہ اندرونی طور پر گھٹیا ہیں۔ پروپیگنڈے کے حوالے سے نازیوں نے اکثر مغربی تہذیب کو "مشرقی" یا "ایشیائی " وحشیوں اور اُن کے یہودی لیڈروں اور تنظیموں سے بچانے کیلئے اس حکمت عملی کو ایک صلیبی جنگ سے تعبیر کیا۔

نسلی بنیادوں پر اختیار کردہ اجتماعی مؤقف

ہٹلر اور نازی تحریک کے دیگر مرکزی قائدین کے لئے ایک انسان کی حتمی قدر اس کی انفرادیت میں موجود نہیں تھی بلکہ یہ اُس کی نسلی طور پر قائم اجتماعی گروپ سے وابستگی کی بنیاد پر تھی۔ کسی نسل کی اجتماعی حیثیت کا حتمی مقصد خود اپنے وجود کی بقا کو یقینی بنانا تھا۔ اکثر لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انسان میں انفرادی طور پر بقا کی جبلت موجود ہے۔ تاہم ہٹلر کا مؤقف تھا کہ بقا کی جستجو اجتماعی ہوتی ہے جس کا دارومدار کسی فرد کی اُس کے اجتماعی گروپ، لوگوں یا نسل میں رکنیت پر ہوتا ہے۔ (ہٹلر نے یہ اصطلاحات مسلسل متبادل انداز میں استعمال کیں)۔ بقا کیلئے نازیوں کی اجتماعی سوچ کا مقصد "نسل" کی پاکیزگی کو تحفظ دینا اور علاقوں کے حصول کی خاطر دوسری "نسلوں" سے مقابلہ کرنا تھا۔

ہٹلر اور دیگر افراد کے مطابق دوسری نسلوں کے ساتھ اختلاط وقت کے ساتھ اس نسل کو ناجائز بنا دے گا اور اسے اس حد تک خراب کر دے گا کہ وہ اپنی منفرد خصوصیات کھو بیٹھے گی۔ بلکہ حقیقت میں یہ خود کا مؤثر طور پر دفاع کرنے کی صلاحیت بھی کھو دے گی اور یوں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ ہٹلر کا اصرار تھا کہ علاقائی زمین انتہائی اہم ہے کیونکہ کسی نسل کی بڑھتی ہوئی آبادی کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہٹلر کا خیال تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا ساتھ دینے کیلئے اگر زمین موجود نہیں ہے تو بالآخر نسل تباہ ہو جائے گی اور پھر معدوم ہو جائے گی۔

نازیوں نے نسلوں میں معیار کی درجہ بندی کا تصور بھی پیش کیا جس کے مطابق تما م نسلوں کو مساوی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ ہٹلر کا خیال تھا کہ جرمن لوگ ایک اعلیٰ نسل کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جسے اس نے ”آرین “ قرار دیا۔ ہٹلر کا اصرار تھا کہ جرمن ”آرین“ نسل تمام نسلوں کے مقابلے میں زیادہ اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل تھی اور اس حیاتیاتی برتری کی بدولت اسے تمامتر مشرقی یورپ کی وسیع سلطنت پر حکمرانی کرنی تھی۔

”آرین“ نسل

ہٹلر نے خبردار کیا کہ جرمن "آریائی" نسل داخلی طور پر اور باہر سے تحلیل کے خطرہ سے دوچار ہے۔ اندرونی خطرہ "آرین" جرمن اور موروثی طور پر کمتر نسلوں کے ارکان: یہودیوں، روما، افریقیوں اور سلاوک افراد کے مابین شادیوں میں پوشیدہ تھا۔ ان شادیوں سے پیدا ہونیوالی اولاد کے بارے میں کہا گیا کہ اُس نے اعلیٰ جرمن خون سے جھلکتی خصوصیات کو آلودہ کیا۔ اس طرح اُس نے بقا کے لئے دیگر نسلوں کے خلاف اس نسل کی جدوجہد کو کمزور کیا۔

حالت جنگ میں مبتلا جرمن ریاست نے لوگوں کے مابین افزائش نسل کو برداشت کرنے سے جرمن "آریائی" نسل کو مزید کمزور کر دیا جن کے بارے میں نازیوں کا خیال تھا کہ وہ جنیاتی طور پر کمتر ہیں اور مجموعی طور پر وہ نسل کے حفظانِ صحت کو منفی انداز میں متاثر کرتے ہیں۔ ایسے کمتر افراد میں جسمانی اور ذہنی طور پر معذور لوگ، عادی یا پیشہ ور مجرم اور وہ لوگ جو سماجی طور پر اس قسم کے رویوں میں جبراً ہیں جن کو نازی "منحرف رویے" سمجھتے ہیں، جن میں دیگر افراد کے علاوہ بے گھر افراد، مبینہ طور پر فاحشہ عورتیں، ملازمت برقرار نہ رکھ سکنے والے افراد یا شراب کے رسیا لوگ شامل ہیں۔

جرمن "آریائی" نسل بیرونی طور پر بھی تحلیل کے خطرہ سے دوچار تھی کیونکہ ہٹلر کے مطابق وائمر جمہوریہ زمین اور آبادی کے لئے "کمتر" سلاوک اور ایشیائی نسلوں سے مقابلہ ہار رہی تھی۔ اس مقابلے میں "یہودی نسل" نے سلاوک لوگوں کو متحرک کرنے ، جو بصورت دیگر نااہل تھے، اور جرمنوں کو دھوکے سے یہ سوچنے پر مجبور کرنے کیلئے اپنے روایتی سوشلسٹ حربے—سوویت کمیونزم—کو زیادہ مؤثر بنا لیا تھا کہ طبقاتی تنازعوں کے مصنوعی پیمانے نے نسلی جدوجہدکے فطری کردار پر برتری حاصل کر لی ہے ۔ ہٹلر کا خیال تھا کہ رہنے کی جگہوں میں کمی کے باعث جرمنوں میں پیدائش کی شرح خطرناک حد تک کم ہو گئی تھی۔ حالات میں مذید خرابی اُس وقت پیدا ہوئی جب جرمنی پہلی عالمگیر جنگ ہار گیا اور ورسائے کے معاہدے کے مطابق اسے ہزاروں میل قیمتی زمینیں اپنے ہمسایہ ممالک کو واپس کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

ہٹلر کا خیال تھا کہ جرمنی کو اپنی بقا کیلئے دشمنوں کی طرف سے اُس کے گرد گھیرا توڑتے ہوئے مشرق کی جانب سلاویوں کے وسیع علاقوں کو فتح کرنا ہو گا۔ مشرقی علاقوں پر فتح سے جرمنی کو اپنی آبادی بڑھانے کی خاطر مطلوبہ حد تک زمینی گنجائش حاصل ہو جائے گی جس کے وسائل سے وہ اپنی آبادی کو خوراک مہیا کر سکے گا اور ایک عالمی قوت کی جائز حیثیت کے مطابق اعلیٰ نسل کی حیاتیاتی تقدیر کو ممکن بنانے کا ذریعہ حاصل کر پائے گا۔

نسلی دشمنوں کا خاتمہ

ہٹلر اور نازی پارٹی نے اپنے نسلی دشنوں کا صاف اور غیر مبہم الفاظ میں خاکہ پیش کیا۔ ہٹلر اور نازیوں کیلئے یہودی جرمنی کے اندر اور باہر دونوں لحاظ سے ایک ترجیحی دشمن تھے۔ اُن کی مبینہ نسلی اور گھٹیا جینیاتی بناوٹ سرمایہ داری اور اشتراکیت کا استحصالی نظام تخلیق کرتی ہے۔ اپنی نسل کو بڑھانے کی خواہش میں یہودیوں نے جرمن جیسی اعلیٰ نسلوں کے نسلی برتری کے احساس کو کچلنے اور اُس نسل میں جذب ہو کر یا باہمی شادیوں کے باوصف اسے کمزورکرنے کیلئے ان حکومتی نظاموں اور ریاستی تنظیموں کو فروغ دیا جن میں ملکی آئین، مساوی حقوق کے اعلامیے اور بین الاقوامی امن کے اقدامات شامل ہیں۔

یہودیوں نے ان وسائل کو استعمال کیا جو ان کے زیر اختیار تھے یا جنہیں وہ اپنے فائدے کیلئے استعمال کر سکتے تھے مثلاً میڈیا، انفرادی حقوق پر زور دیتی ہوئی پارلیمانی جمہوریت اور بین الاقوامی تنظیمیں جنہوں نے خود کو قومی تنازعات کے حوالے سے پرامن مفاہمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ان وسائل کے استعمال سے اُن کا مقصد اپنی حیاتیاتی توسیع پسندی کو بڑھاتے ہوئے عالمی طاقت کی حیثیت حاصل کرنا تھا۔ ہٹلر نے سوچا کہ اگر جرمنی نے ملک کے اندر اور باہر یہودیوں کے خلاف فیصلہ کن انداز میں کارروئی نہ کی تو گھٹیا انسانوں کے ایسے ریوڑ اورغیر مہذب سلاوی اور ایشیائی افراد،جنہیں یہودی اپنے مفاد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں،"آرین" جرمن نسل کو بہا کر لے جائیں گے۔

ہٹلر کا مؤقف تھا کہ "اعلیٰ ترین خصوصیات کے حامل افراد کی افزائش بڑھانے، کمتر خصوصیات والے افراد کی افزائش روکنے اور توسیع پسندی کیلئے جنگوں کی تیاری کی خاطر نسلوں میں تفریق کرنے میں سرکاری مداخلت نے جرمن قوم کو اپنی بقا کیلئے حیاتیاتی بنیادوں پراستوار فطری جبلت سے ہم آہنگ کردیا ہے۔ مزید برآں، اس نے جرمن لوگوں کے درمیان ایک "فطری" نسل کے شعور کو فروغ دیا، ایک ایسا شعور جسے یہودیوں نے پارلیمانی جمہوریت، تعاون کیلئے بین الاقوامی معاہدوں اور طبقاتی کشمکش کے ذریعے دبانے کی کوشش کی۔ ہٹلر کا خیال تھا کہ اپنی نسلی برتری کی وجہ سے جرمنوں کا یہ حق اور فرض ہے کہ وہ مشرق میں سلاویوں، "ایشیائی لوگوں،" اور ان کی ڈور ہلانے والے یہودی آقاؤں سے علاقہ چھین لیں۔ ہٹلر کا اصرار تھا کہ ان مقاصد کی خاطر جرمنوں نے خود اپنی فطری جبلت سے کام لیا۔ سلاویوں کو مستقل طور پر شکست دینے اور اُن پر حاوی ہونے کیلئے جرمن آقاؤں کو خطہ کی قیادت اور یہودیوں کو تباہ و برباد کرنا تھا۔ یہ واحد "نسل" تھی جو بورژوائی -کمیونسٹ نظریے کے استعمال سے کمتر نسلوں کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ یہ نظریہ حیاتیاتی طور پر "یہودیوں" کا طے شدہ نظریہ تھا۔

اس فاسد نظرئیے کو ختم کرنا جو جرمن بقا کیلئے خطرناک تھا، اُن لوگوں کو ختم کرنا ضروری تھا جو قدرتی طور پر اس کو پروان چڑھانے کے خواہشمند تھے۔ ہٹلر کے خیال میں فطرت اسی انداز میں کام کرتی ہے۔ بالآخر جنگ اور قتل عام کے حوالے سے ہٹلر کے پروگرام نے اُس مساوات سے جنم لیا جس کے بارے میں اُس نے سوچا تھا: "آرین" جرمنوں کو اپنے دائرہ اختیار کو وسیع کرنا اور دوسروں پر حاوی ہونا ہو گا۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جس کے تحت خاص طور پر یہودیوں سمیت تمامتر نسلی خطروں کا خاتمہ کرنا ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو خود جرمنوں کو خاتمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔