يہودی بچے جنہيں ڈینیل ٹراکمے (عینک میں، پیچے، درمیان میں) کے زیر ہدایت بچوں کے ایک ہوم مائیسن دیس روچز میں پناہ دی گئی۔

ہالوکاسٹ کے دور میں بچے خاص طور پر ہدف بنے۔ نازیوں نے کچھ مخصوص گروپوں کے بچوں کو اُن گروپوں کے نظریاتی خیالات کے حوالے سے "غیر مطلوبہ" یا "خطرناک" قرار دیتے ہوئے اُنہیں قتل کرنے پر زور دیا۔ نازیوں نے ایسا "نسلی جدوجہد" کے حصے کے طور پر یا پھر "پیش بندی کے طور پر اختیار کی جانے والی سیکیورٹی" کے اقدام کے حوالے سے کیا۔ جرمنوں اور اُن کے حواریوں نے انہی نظریات کی وجوہ پر یا پھر حقیقی یا مبینہ طور پر تعصبانہ حملوں کے ردِعمل میں بچوں کو قتل کیا۔

جرمنوں اور اُن کے حلیفوں نے تقریباً 15 لاکھ بچوں کو ہلاک کردیا جن میں 10 لاکھ سے زائد یہودی بچے، ھزاروں کی تعداد میں رومانی خانہ بدوشوں کے بچے، مخصوص اداروں میں رہنے والے جسمانی اور ذہنی طور پر معذور جرمن بچے، پولینڈ کے بچے اور مقبوضہ سوویت یونین میں رہائش پزیر بچے شامل تھے۔ 13 سے 18 سال کے درمیان کی عمر کے بالغ بچوں کے زندہ بچ جانے کے امکانات زیادہ تھے کیونکہ اُنہیں جبری مشقت کیلئے بھرتی کیا جا سکتا تھا۔

یہودی اور غیر یہودی بچوں کی قسمت کا فیصلہ جس جس انداز میں کیا گیا اُس کا اظہارمندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ 1) بچوں کو اسی وقت ہلاک کر دیا جاتا جب وہ قتل گاہوں میں لائے جاتے؛ 2) بچوں کو اُن کی پیدائش کے فوراً بعد یا پھر متعلقہ اداروں میں ہلاک کردیا جاتا؛ 3) ییہودیوں کے مخصوص کیمپوں یعنی گھیٹو میں یا دیگر کیمپوں میں پیدا ہونے والے بچے جو اِس لئے بچ گئے کہ قیدیوں نے اُنہیں چھپا دیا تھا؛ 4) 12 سال سے زائد عمر کے بچے جنہیں جبری مزدوری یا پھر طبی تجربات کیلئے وقف کر دیا جاتا تھا؛ 5) وہ بچے جو جوابی کارروائیوں یا پھر نام نہاد غیر جانبداری کی کارروائیوں کے دوران ہلاک کردئے جاتے تھے۔

یہودی بستیوں یعنی گھیٹو میں یہودی بچے بھوک پیاس یا پھر کپڑوں اور پناہ گاہ کے فقدان کی وجہ سے سردی کا شکار ہوتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے۔ جرمن حکام وسیع پیمانے پر ہونے والی اِن ہلاکتوں سے لا تعلق رہے کیونکہ وہ گھیٹو میں رہنے والے بیشتر بچوں کو بے فائدہ اور بے کار کھانے والا ہی سمجھتے۔ چونکہ یہ بچے جبری مشقت کیلئے عام طور پر بے حد کم عمر تھے اسلئے جرمن حکام عموماً اُن کو معمر، بیمار اور معذور افراد کے ساتھ منتخب کرتےتاکہ قتل گاہوں میں فوری طور پر بھیجا جائے یا پھر گولی کا نشانہ بنا کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جائے۔

آش وٹز برکینو اور دوسری قتل گاہوں میں آمد پر کیمپ حکام بچوں کی اکثریت کو براہِ راست گیس چیمبرز میں بھیج دیتے تھے۔ جرمن مقبوضہ پولینڈ اور مقبوضہ سوویت یونین میں ایس ایس اور پولیس اہلکاروں نے اجتماعی قبروں کے کناروں پر ھزاروں بچوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ قتل گاہوں کو جانے والی پہلی ٹرانسپورٹ میں بچوں کے انتخاب یا پھر گولی مار کر ہلاک ہونے والوں کے پہلے نشانے اور اہداف فراہم کرنے کا عمل یہودی کونسل (جوڈینریٹ) کے سربراہ کے اذیت دہ اور متنازعہ فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ ستمبر 1942 میں لوڈز میں جوڈینریٹ کی طرف سے بچوں کو چیلمنو قتل گاہ بھیجنے کا فیصلہ بالغ افراد کے المناک انتخاب کی ایک مثال ہے جو وہ جرمن مطالبات کے تحت کرتے تھے۔ وارسا گھیٹو میں یتیم خانے کے ڈائریکٹر جینوز کورزیک نے اپنی نگرانی میں رہنے والے بچوں کو الگ کرنے سے انکار کر دیا جب ڈی پورٹ کرنے کیلئے اُن کا انتخاب ہوا۔ وہ ٹریبلینا قتل گاہ پہنچانے والی سواری میں اُن بچوں کے ساتھ رہے اور پھر گیس چیمبر میں بھی اُن کے ساتھ گئے اور یوں اُن کی قسمت کے فیصلے میں خود بھی شامل ہو گئے۔

نشانہ بنائے گئے بعض غیر یہودی بچوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ اِن مثالوں میں آش وٹز کیمپ میں ہلاک کئے جانے والے رومانی خانہ بدوش بھی شامل تھے۔ اِن میں پانچ ھزار سے سات ھزار کو یوتھینیسیا پروگرام کے تحت ہلاک کیا گیا۔ پھر بچوں کو جوابی کارروائی کے تحت بھی ہلاک کیا گیا جن میں سے بیشتر بچوں کا تعلق لائڈائس سے تھا اور مقبوضہ سوویت یونین میں دیہاتیوں کے بچوں کو اُن کے والدین کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔

جرمن حکام نے بھی عقوبتی کیمپوں اور عارضی کیمپوں میں بچوں کی بڑی تعداد کو قید میں ڈال دیا۔ ایس ایس ڈاکٹروں اور طبی تحقیق کاروں نے جڑواں بچوں سمیت بڑی تعداد کو طبی تجربات میں استعمال کیا جن کے نتیجے میں عموماً بچوں کی اموات واقع ہو جاتیں۔ عقوبتی کیمپوں میں حکام نے نوجوانوں کو تعینات کیا خاص طور پر یہودی نوجوانوں کو جو عقوبتی کیمپوں میں جبری مشقت کرتے تھے۔ یہاں بیشتر اموات خراب صورتِ حال کی وجہ سے ہوئیں۔ جرمن حکام نے دوسرے بچوں کو عارضی کیمپوں میں انتہائی خراب حالات میں رکھا جیسے این فرینک اور اُن کی بہن کا برجن بیلسن والا کیس ہے۔ پھر وہ غیر یہودی یتیم بچے جن کے والدین کو جرمن فوج اور پولیس یونٹوں نے پارٹی مخاف کارروائیوں کے مرتکب ہونے کی بنا پر قتل کر دیا تھا۔ اِن میں سے بعض یتیموں کو عارضی طور پر لوبلن/مجدانیک عقوبتی کیمپ اور دوسرے حراستی کیمپوںمیں رکھا گیا۔

آریائی خون کی بازیابی کی تلاش میں ایس ایس نسلی ماہروں نے مقبوضہ پولینڈ اور مقبوضہ سوویت یونین سے سینکڑوں بچوں کو اغوا کر کے جرمنی لانے کا حکم دیا تاکہ نسلی طور پر مناسب جرمن خاندان اُن کو پال سکیں۔ اگرچہ اِن فیصلوں کی بنیاد نسل کی سائینس تھی اور اکثر سنہرے بال، نیلی آنکھیں اور سفید جلد اُنہیں جرمن ہونے کے موقع سے مستفید کرنے کیلئے کافی تھے۔ دوسری جانب پولینڈ اور سوویت یونین کی خواتین کو جبری مشقت کیلئے جرمنی لایا گیا اور جنہیں اکثر اوقات جبری طور پر جرمن مردوں کی ھوس کا نشانہ بننا پڑتا، اگر وہ حاملہ ہو جاتیں تو اُنہیں اسقاطِ حمل پر مجبور کیا جاتا یا پھر اگر نسل کے ماہر یہ فیصلہ کر دیتے کہ اُن بچوں میں جرمن خون ناکافی ہے تو اُن کو ایسی صورتِ حال سے دوچار کیا جاتا جس میں اُن کی موت یقینی ہو جاتی۔

ھنے ھرش لیبمین  لی چیمبون۔سر۔لگنون میں چلڈرنز ایڈ سوسائٹی (او ایس ای) کے دورے اور وہاں زندگی کے بارے میں وضاحت کرتی ہیں۔ 

انتہائی خطرے کا سامنا کرنے کے باوجود بچوں نے زندہ رہنے کے طریقے سیکھ لئے۔ بچے کھانا اور ادویات گھیٹو مین اسمگل کردیتے اور پھر ذاتی اشیاء کی اسمگلنگ کے بعد سودا کرتے ہوئے گھیٹو سے باہر نکل جاتے۔ نوجوانی کی تحریکوں میں شریک بچوں نے بعد میں خفیہ مزاحمتی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ بیشتر بچے اپنے والدین یا دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ فرار ہو گئے۔ بعض اوقات خود اپنے ہی طور پر بھاگ کر ایسے خاندانی کیمپوں میں چلے گئے جنہیں یہودی پارٹیوں کے ارکان چلاتے تھے۔ < P> 1938 سے 1940 کے دوران کنڈر ٹرانسپورٹ بچوں کی ٹرانسپورٹ امدادی کوشش کا غیر رسمی نام تھا جو ھزاروں یہودی بچوں کو اُن کے والدین کے بغیر نازی جرمنی اور مقبوضہ جرمن علاقوں سے برطانیہ کے محفوظ علاقے میں پہنچاتی تھی۔ بعض غیر یہودیوں نے یہودی بچوں کو چھپایا اور بعض اوقات این فرینک کے کیس میں تو خاندان کے دوسرے ارکان کو بھی چھپایا گیا۔ فرانس میں لی چیمبون سُر لگنون کی تماتر پروٹیسٹنٹ آبادی کے ساتھ ساتھ کیتھولک پادریوں اور راہباؤں نے 1942 سے 1944 کے دوران بچوں کو چھپا کر بچایا تھا۔

نازی جرمنی کے ہتھیار ڈالنے پر دوسری جنگِ عظیم کا خاتمہ ہوا تو پناہ گذینوں اور بے گھر افراد نے یورپ بھر میں لاپتہ بچوں کی تلاش کی۔ ھزاروں یتیم بچے بے گھر افراد کے کیمپوں میں تھے۔ بیشتر بچ جانے والے یہودی بچے مشرقی یورپ سے بڑی تعداد میں فلسطین کی یہودی بستی Yishuv جاتے ہوئے بھاگ کر مقبوضہ جرمنی کے مغربی علاقوں کی طرف چلے گئے۔ نوجوانوں کے ترکِ وطن کرنے کے نتیجے میں ھزاروں تارکینِ وطن پہلے Yishuv پہنچے اور پھر بعد میں 1948 میں اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے بعد وہاں منتقل ہو گئے۔